’’ينبغي سد باب الرواية بالمعني لئلا يتسلط من لا يحسنن ممن يظن كما وقع لكثير من الرواة قديما و حديثا‘‘ [1]
یعنی ’’روایت بالمعنی کا باب بند کر دینا چاہیے تاکہ برخود غلط اور جہل مرکب میں مبتلا راوی جو ماہر نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ماہر سمجھتے ہیں روایت بالمعنی کی جسارت نہ کریں جیسا کہ قدیم اور حدیث ہر دور میں ہوتا رہا ہے‘‘۔
روایت بالمعنی کے جواز کے لئے شرائط:
روایت بالمعنی کے جواز کے ضمن میں مختلف علماء نے اپنے اپنے ذوق اور جداگانہ معیار احتیاط کے مطابق مختلف شرائط بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ہر قسم کی احادیث میں روایت بالمعنی جائز نہیں ہے بلکہ صرف ان احادیث میں جائز ہے جو احکام سے متعلق نہ ہوں کیونکہ ان احادیث میں لفظ کے اختلاف سے معنی میں تغیر اور اختلافات پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’وكل مالم يكن فيه حكم فاختلاف اللفظ فيه لا يحيل معناه‘‘ [2]
دراصل اس طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے روایت بالمعنی کے دائرہ کو انتہائی تنگ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ احکام کی احادیث دوسری احادیث کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں، اور عربی زبان کے اسرارورموز کا فہم رکھنے والے راوی جہلاء کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ ان تمام امور کی تفصیل کے لئے حاشیہ[3] کے تحت درج شدہ کتابوں کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
امام شافعی رحمہ اللہ روایت بالمعنی کی اس وقت اجازت دیتے ہیں ’’جبکہ لفظ کے تغیر سے معنی میں تغیر نہ آتا ہو‘‘۔[4]اس کے لئے آں رحمہ اللہ نے کچھ دوسری شرائط بھی بیان کی ہیں، مثلاً راوی عاقل ہو اور حدیث کے معنی کا فہم رکھتا ہو، راوی الفاظ کی تبدیلی سے معنی میں واقع ہونے والے فرق کا عالم ہو یعنی الفاظ اور ان کے معانی کے فرق اور ان کے اسالیب کو سمجھتا ہو کیونکہ اگر وہ ان کو نہ سمجھتا ہو تو کبھی یہ ہو سکتا ہے کہ لفظ کے تغیر سے معنی بدل جائیں یا اسلوب تبدیل ہو جائے اور وہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر بیٹھے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’لأنه إذا كان الذي يحمل الحديث يجهل هذا المعني كان غير عاقل للحديث فلم
|