Maktaba Wahhabi

330 - 363
يقبل حديثه إذا كان يحمل مالا يعقل ان كان ممن لا يؤدي الحديث بحروفه وكان يلتمس تأديته علي معانيه وهو لا يعقل المعني‘‘ [1] امام مسلم رحمہ اللہ ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’إذا أراد رواية الحديث بالمعني فإن لم يكن خبيرا بالألفاظ ومقاصدها عالما بما يختل معانيها لم يجز له الرواية بالمعني بلا خلاف بين أهل العلم بل يتعين اللفظ‘‘ [2] یعنی ’’اگر (کوئی راوی) حدیث کو بالمعنی روایت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن اس کے الفاظ کے معانی و مقاصد کو نہ جانتا ہو اور اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کس تغیر سے اس کے معانی میں خلل واقع ہوتا ہے تو اس کے لئے روایت بالمعنی جائز نہیں ہے بلکہ لفظ کا تعین ہی ضروری ہے۔ اس بارے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘۔ یہی بات امام نووی رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں: ’’إن لم يكن عالما بالألفاظ ومقاصدها خبيرا بما يحيل معانيها لم تجز له الرواية بالمعني بلا خلاف بل يتعين اللفظ الذي سمعه‘‘ [3] علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قال جمهور الفقهاء يجوز للعالم بمواقع الخطاب و معاني الألفاظ رواية الحديث علي المعني وليس بين أهل العلم خلاف في أن ذلك لا يجوز للجاهل بمعني الكلام و موقع الخطاب والمحتمل منه و غير المحتمل‘‘ [4] یعنی ’’جمہور فقہاء کا قول ہے کہ مواقع خطاب اور معانی الفاظ کے جاننے والے علماء کے لئے حدیث کی روایت بالمعنی جائز ہے۔ اس بارے میں اہل علم حضرات کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص کلام نبوی کے معانی یا مواقع خطاب اور اس کے محتمل و غیر محتمل ہونے کا علم نہ رکھتا ہو اس کے لئے روایت بالمعنی جائز نہیں ہے‘‘۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص زبان میں الفاظ کے مدلول و مقاصد اور ان کے معانی و محامل اور اس کے دوسرے محتملات اور مترادف الفاظ کا علم نہ رکھتا ہو ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ حدیث کو جن الفاظ کے ساتھ سنے انہی الفاظ کے ساتھ اس طرح روایت کرے کہ کسی حرف کی تقدیم و تاخیر یا زیادتی و نقصان یا ایک یا ایک سے زیادہ حروف کا ابدال یا مشدد کو مخفف یا مخفف کو مشدد کرنا لازم نہ آتا ہو۔ یہ چیز تمام علماء کے مابین کسی اختلاف کے بغیر علی وجہ
Flag Counter