الوجوب مقرر ہے‘‘۔ [1]
کیونکہ بقول علامہ سخاوی رحمہ اللہ:
’’جو شخص مذکورہ بالا چیزوں کا علم نہیں رکھتا وہ بسبب خلل تغییر سے مامون نہیں ہوتا‘‘۔[2]
حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا قول ہے کہ:
’’محدثین، فقہاء اور علمائے اصول کی اکثریت روایت بالمعنی کے جواز کی قائل ہے بشرطیکہ راوی عربی زبان سے پوری طرح باخبر ہو اور معانی کو اصل الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کی خوب مہارت رکھتا ہو‘‘۔[3]
علامہ سخاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’بعض کا قول ہے کہ اس شخص کے لئے روایت جائز نہیں ہے جسے اصل الفاظ حفظ ہوں کیونکہ اس صورت میں وہ علت زائل ہو جاتی ہے کہ جس کے سبب اس معاملہ میں رخصت دی جاتی ہے (نیز یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں جو فصاحت موجود ہوتی ہے وہ دوسروں کے کلام میں موجود نہیں ہوتی)۔ یہ علماء اس کے علاوہ دوسروں کے لئے (یعنی جن کو اصل الفاظ حفظ نہ ہوں) روایت بالمعنی جائز قرار دیتے ہیں، کیونکہ تحمل لفظ اور تحمل معنی میں سے کسی ایک کے محفوظ نہ ہونے کی صورت میں جو چیز محفوظ ہو اس کا ادا کرنا لازم ہے کیونکہ اس کا بھی ترک کر دینا کتمان احکام کا باعث قرار پائے گا اسے ماوردی نے ’’الحاوی‘‘ میں بیان کیا ہے اور اسی طرف گئے ہیں‘‘۔ [4]
بعض علماء نے اس کے برعکس بیان کیا ہے یعنی روایت بالمعنی اس شخص کے لئے جائز ہے جسے حدیث کے اصل الفاظ حفظ ہوں [5] جیسا کہ اوپر ’’روایت بالمعنی مشاہیر علماء کی نظر میں‘‘ کے زیر عنوان گزر چکا ہے، لہٰذا یہاں اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ولا يجوز تعمد تغيير صورة المتن مطلقا ولا الاختصار منه بالنقص ولا إبدال اللفظ المرادف له إلا لعالم بمدلولات الألفاظ‘‘ [6]
یعنی ’’متن حدیث کو عمداً بدلنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے اور نہ الفاظ کم کر کے اختصار کرنا جائز ہے
|