قید کے ساتھ‘‘۔[1]
اور جناب بحر العلوم عبدالعلی پسر ملا نظام الدین لکھنوی فرماتے ہیں:
’’مزکی کے لئے ضروری ہے کہ عادل ہو، اسباب جرح و تعدیل کو جانتا ہو، منصف مزاج اور ناصح ہو، متعصب اور اپنے نفس کو پسند کرنے والا نہ ہو، کیونکہ متعصب کا قول شمار نہیں کیا جاتا الخ‘‘۔ [2]
جرح کی حدود:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل طریقہ سے تناول اعراض المسلمین کو حرام قرار دیا ہے، چنانچہ یوم النحر کے خطبہ میں آں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’—فإن دماءكم و أموالكم و أعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا‘‘ [3]
یعنی ’’—تمہارے اس دن کی حرمت کی طرح تمہارے مابین تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں حرام ہیں‘‘۔
اس حدیث کی روشنی میں چونکہ مسلمانوں کی آبرو کی حفاظت مقدسات اسلام میں سے ایک اہم اور مقدس چیز ہے، لہٰذا جرح و تعدیل سے ممارست رکھنے والے اصحاب کی تذکیر کے لئے علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
’’أعراض المسلمين حفرة من حفر النار وقف علي سفيرها طائفتان من الناس: المحدثون والحكام‘‘ [4]
یعنی ’’مسلمانوں کی آبرو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے جس کے کنارہ پر لوگوں کے دو گروہ کھڑے ہیں: محدثین اور حکام‘‘۔
لہٰذا رواۃ پر جرح، حقد و تشنیع یا تضلیل و تحقیر یا تشہیر کے لئے نہیں بلکہ دینی وجوب کی ادائیگی، مسلمانوں کی نصیحت اور انہیں مفاسد سے دور رکھنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اللہ عزوجل نے اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ائمہ اہلحدیث
|