اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب فرماتے ہیں:
’’محققین کی یہ قوی رائے ہے کہ عدل و ضبط کے بعد راوی کے لئے فقہ کی شرط صرف عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے۔ بہت سے متاخرین بھی ان کے ساتھ ہیں۔ امام کرخی اس کے خلاف ہیں اور قدماء احناف سے بھی یہ مذہب منقول نہیں ہے۔ ان کی رائے ہے کہ حدیث بہرحال مقدم ہے‘‘۔ [1]
اور متاخرین میں سے علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولم ينقل عن احد من السلف اشتراط الفقه في الراوي فثبت ان هذا القول مستحدث‘‘ [2]
’’راوی میں اشتراط سلف میں سے کسی سے منقول نہیں ہے پس ثابت ہوا کہ یہ قول نو ایجاد ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت کا ثبوت
ابن سعد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ میں جو صحابی فتویٰ میں مرجع انام تھے وہ یہ ہیں: ابن عباس، ابن عمر، ابو سعید الخدری، ابو ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم‘‘۔ [3]
امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں تخریج کی ہے کہ ’’ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’أفته يا أبا هريرة‘‘ (اے ابو ہریرہ آپ فتویٰ دیجیے) پھر آپ نے جو فتویٰ دیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی موافقت فرمائی‘‘۔ [4]
بلاذری لکھتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین نماز پڑھانے اور لوگوں کے جھگڑے و تنازعات کے فیصلے کرنے کے لئے بھیجا تھا‘‘۔[5]امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ نے تیرہ متوسط درجہ کے مفتیین صحابہ میں چوتھے نمبر پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا ہے۔ [6] امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابو هريرة الدوسي اليماني الحافظ الفقيه صاحب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ۔۔۔ وكان من أوعية العلم ومن كبار أئمة الفتوي مع الجلالة والعبادة والتواضع‘‘ [7]
|