Maktaba Wahhabi

114 - 363
الاخسيكثي للإمام عبدالعزيز وقد عمل أصحابنا بحديث أبي هريرة رضي اللّٰه عنه إذا أكل أو شرب ناسيا و إن كان مخالفا للقياس حتي قال أبو حنيفة لولا الرواية لقلت بالقياس وقد ثبت عن ابي حنيفة رضي اللّٰه عنه أنه قال ما جاءنا عن اللّٰه وعن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فعلي الرأس والعين ولم ينقل عن أحد من السلف اشتراط الفقه في الراوي فثبت أنه قول محدث‘‘ [1] ’’خبر کی قیاس پر تقدیم کے لئے فقہ الراوی کی شرط ہمارے اصحاب میں سے عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے اور اسی پر حدیث مصراۃ کو تخریج کیا ہے۔ متاخرین میں سے اکثر نے اس کی اتباع کی ہے لیکن شیخ ابو الحسن کرخی اور اصحاب میں سے ان کے اتباع کے نزدیک قیاس پر خبر کی تقسیم کے لئے فقہ الراوی شرط نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہر عادل ضابط کی روایت کو قبول کرتے ہیں، بشرطیکہ ان کی روایت کتاب اللہ اور مشہور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہ ہو، اور اسے قیاس پر مقدم کرتے ہیں۔ ابو الیسر کا قول ہے کہ اکثر علماء اسی طرف گئے ہیں۔ امام عبدالعزیز نے کتاب التحقیق فی شرح الاخسکیثی میں بیان کیا ہے کہ ہمارے اصحاب کا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل ہے مثلاً اگر کوئی روزہ دار بھول کر کھا پی لے، اگرچہ کہ یہ خلاف قیاس ہے، حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر اس بارے میں روایت موجود نہ ہوتی تو میں قیاس سے حکم دیتا۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت ہے کہ آں رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو خبر بھی ہمارے پاس آئے وہ ہمارے سر چشم پر ہے اور سلف میں سے کسی سے بھی فقہ الراوی کی شرط منقول نہیں ہے، پس ثابت ہوا کہ یہ قول نو ایجاد ہے‘‘۔ اسی طرح صاحب ’’قمر الاقمار‘‘ رقمطراز ہیں: ’’فقہ الراوی کی اشتراط فقط عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے۔ متاخرین میں جو بھی اس کے قائل ہوئے ہیں اسی کی اتباع میں ہوئے ہیں۔ یہ مذہب نہایت کمزور ہے بلکہ مستحدث ہے۔ اس کے لئے قدماء سلف سے، راوی کی فقاہت کی وجہ سے (حدیث پر) قیاس کے مقدم ہونے کی شرط منقول نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہمارے امام اعظم سے تو یہ منقول ہے کہ ہمارے پاس ہمارے اللہ اور رسول کی جو بات پہنچے گی وہ سر آنکھوں پر ہے۔‘‘ [2]
Flag Counter