فرماتے ہیں: ) ’’ولهذا قال شيخ الحنفية صاحب الكشف والتحقيق في التحقيق ولم ينقل عن أحد من السلف اشتراط الفقه من الراوي فثبت أنه مستحدث بمثل هذا لا ينسب إلي ابي حنيفة رحمه اللّٰه‘‘ یعنی شیخ حنفیہ علامہ عبدالعزیز البخاری رحمہ اللہ، صاحب ’’التحقیق‘‘ و ’’کشف الأسرار‘‘، کتاب ’’التحقیق‘‘ میں اسی باعث فرماتے ہیں کہ فقہ راوی کی شرط ائمہ سلف میں کسی سے بھی منقول نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ من گھڑت بات ہے، ایسی بات امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی۔‘‘ [1]
یہاں ’’اصول البزدوی‘‘ کے شارح عبدالعزیز بن احمد البخاری رحمہ اللہ کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’فأما عند الشيخ ابي الحسن الكرخي ومن تابعه من أصحابنا فليس فقه الراوي بشرط لتقديم خبره علي القياس بل يقبل خبر كل عدل ضابط اذا لم يكن مخالفا للكتاب والسنة المشهورة و يقدم علي القياس قال أبو اليسر و إليه أكثر العلماء لأن التغيير من الراوي بعد ثبوت عدالته و ضبطه موهوم‘‘ [2]
’’اور شیخ ابو الحسن کرخی اور ہمارے اصحاب میں سے ان کے اتباع کے نزدیک فقہ راوی قیاس پر خبر کی تقدیم کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ وہ ہر عادل ضابط کی روایت کو قبول کرتے ہیں بشرطیکہ ان کی روایت کتاب اور مشہور سنت نبوی کے خلاف نہ ہو، اور اسے قیاس پر مقدم کرتے ہیں۔ ابو الیسر کا قول ہے کہ اکثر علماء اسی طرف گئے ہیں کیونکہ راوی کی عدالت و ضبط کے ثبوت کے بعد اس کی طرف سے حدیث کے مفہوم میں تغیر و تبدل موہوم سی بات ہے‘‘۔
مشہور حنفی عالم شیخ عبدالقادر قرشی رحمہ اللہ (775ھ) فرماتے ہیں:
’’مذهب عيسي بن أبان من أصحابنا اشتراط فقه الراوي لتقديم الخبر علي القياس و خرج عليه حديث المصراة و تابعه أكثر المتاخرين فأما عند الشيخ أبي الحسن الكرخي ومن تابعه من الأصحاب فليس فقه الراوي شرطا في تقديم الخبر علي القياس بل يقبل خبر كل عدل ضابط اذا لم يكن مخالفا للكتاب أو السنة المشهورة يقدم علي القياس۔ قال أبو اليسر و إليه مال أكثر العلماء قال في التحقيق في شرح
|