Maktaba Wahhabi

112 - 363
یہاں اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث کے الفاظ بعینہ حفظ کرنے اور احادیث کو انہی کی اصل ہئیت پر تبلیغ کرنے میں بکثرت اعتناء کرتے تھے، چنانچہ ان سے بکثرت ایسا منقول ہے۔ جہاں تک دو لفظوں میں شک اور دو جملوں میں تردد کا تعلق ہے تو وہ اس پر شدید نکیر کیا کرتے تھے جو کسی خبر کے لفظ کو دوسرے لفظ سے بدل دے، خواہ اس سے معنی میں نہ کوئی فساد واقع ہوتا ہو اور نہ ہی اس سے معنی متغیر ہوتے ہوں، جیسا کہ ان تمام لوگوں میں سے کسی پر بھی مخفی نہیں ہے جو کتب فن پر نگاہ رکھتے ہیں اور سنن کی روایات پر تامل کرتے ہیں۔ پس یہ چیز ان سے مستعبد ہے کہ وہ الفاظ کو بدل دیں اور مواقع الفاظ پر تامل نہ کریں خواہ غیر فقیہ ہی ہوں – میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ ہی بکثرت صحابہ رضی اللہ عنہم روایت للمبنی پر غیر ملتزم اور روایت بالمعنی پر مکتف تھے، پس اگر وہاں تفاوت بالفقہ ظاہر نہ ہوا ہو تو یہاں ظاہر ہے۔ اگر صحابہ میں روایت کے الفاظ کے ساتھ اعتناء کرنا موجود بھی ہو تو وہ ان کے بعد میں آنے والے رواۃ اور ائمہ میں مفقود ہو گیا تھا، پس انہوں نے اعتناء بالمبنی کے بغیر روایت بالمعنی کو جائز قرار دیا اور یہی اکثر فقہاء و محدثین کا مذہب ہے، برخلاف فقہاء و محدثین کے ایک گروہ کے۔ پس ضروری ہے کہ فقہ میں ان کا تفاوت اور مقدار تامل و افہام کے لحاظ سے ترجیح کا اعتبار کیا جائے‘‘۔ [1] علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کے اس کلام میں کئی امور ایسے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، یا پھر حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن چونکہ یہاں ان سب چیزوں کا جواب دینا طول محض کا سبب ہو گا اس لئے ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے علامہ محمد معین سندھی رحمہ اللہ کا ایک اور مفید و پرمغز اقتباس نقل کرتے ہیں۔ آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 1- ’’فقہ راوی کو تحمل اور صدق روایت میں کوئی اثر ہی نہیں، (2) صحابہ میں یہ امکان ہی نہیں کہ روایت بالمعنی میں ایسی غلطی کریں کہ جس سے حدیث کا مقصود فوت ہو جائے، (3) جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے الفاظ ضبط کرنے کی کوشش فرماتے تھے، کیسے ممکن ہے کہ وہ معنی ادا کرنے میں غلطی کریں، (4) وہ لوگ اہل زبان تھے، ان سے اداء معنی میں غلطی کا احتمال کس طرح ہو سکتا ہے؟، پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسا دانشمند آدمی، کہ جس کی طرف بوقت ضرورت عبادلہ جیسے فقہائے صحابہ رجوع کیا کرتے تھے، (5) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں حفظ کے لئے دعا فرمائی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ بقول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد مجھے کبھی نسیان نہیں ہوا۔ پس اگر یہ حفظ بلا فہم ہو یا ان سے غلط فہمی ہو جانے کا امکان ہو تو پھر اس دعاء کا کیا فائدہ ہوا؟ (6) جو لوگ صحیحین کے رجال کے خصائص سے واقف ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ادنیٰ اور معمولی آدمی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی غلط تعبیر نہیں کر سکتا۔ (پھر
Flag Counter