Maktaba Wahhabi

151 - 363
پس معلوم ہوا کہ کسی روایت کی صحت اور اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کے لئے اس کے رواۃ کے کوائف و احوال کی مکمل معرفت کا حاصل کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’الکفایۃ‘‘ میں حدیث کے راویوں کے کوائف و احوال جاننے کے لئے چھان بین کرنا واجب قرار دیتے ہوئے ایک باب یوں مقرر کیا ہے: ’’باب وجوب البحث والسؤال للكشف عن الأمور والأحوال‘‘[1]اور اس کے تحت فرماتے ہیں: ’’اہل علم حضرات کا اتفاق ہے کہ جس طرح گواہی صرف اس شاہد کی قبول کی جاتی ہے جو کہ عدل ہو، اسی طرح خبر بھی عدل سے متصف مخبر سے ہی قبول کی جائے گی۔ پس جب یہ بات طے پا گئی تو اگر شاہد یا مخبر کی عدالت کا علم نہ ہو تو اہل معرفت سے ان کے احوال کے متعلق استفسار کرنا واجب ہے۔‘‘ [2] علامہ بغدادی رحمہ اللہ آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں جھوٹے پیدا ہوں گے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ہوشیار رہنے اور ان کی روایات قبول کرنے سے منع فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کسی دوسرے پر جھوٹ باندھنے جیسا (شدید) نہیں ہے پس احوال محدثین پر نظر اور امور ناقلین کی تفتیش دین میں احتیاط کا تقاضہ اور شریعت کو ملحدین کی تلبیس سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے۔‘‘ [3] امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے: ’’آلة الحديث الصدق والشهرة بطلبه و ترك البدع و اجتناب الكبائر‘‘ [4] یعنی ’’صدق شہرت طلب، ترک بدعت اور اجتناب الکبائر حدیث کا آلہ ہیں‘‘۔ اور ظاہر ہے کہ کسی مخبر کی صداقت نیز بدعات و کبائر سے اس کے مجتنب رہنے وغیرہ پر مطلع ہونا بلا تحقیق و تفتیش کے ممکن نہیں ہے۔ حدیث کے راویوں کے جملہ احوال و کوائف کے متعلق چھان بین کر کے معتبر ذرائع سے وافر مقدار میں معلومات حاصل کرنا اور پھر فراہم شدہ تمام معلومات کی روشنی میں باعتبار عدالت و ثقاہت اس پر کوئی حکم لگانا محدثین کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کی تاریخ الامم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اصطلاح حدیث میں ’’عدالت‘‘ کا معنی: علی بن ابراہیم مروزی بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص نے ابن مبارک سے عدل کے متعلق سوال کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جس شخص میں یہ پانچ صفات موجود ہوں وہ عدل ہے: جماعت سے وابستہ ہو، شراب نہ پیتا ہو، اس کے
Flag Counter