Maktaba Wahhabi

152 - 363
دین میں کوئی خرابی نہ ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو اور اس کی عقل میں کوئی خلل نہ ہو‘‘۔ [1] امام زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’ایسا کوئی شریف، عالم اور آمر نہیں ہے کہ جس میں قطعاً کوئی عیب نہ ہو، لیکن بہتر انسان وہ ہے جو اس کے عیوب کا تذکرہ نہ کرتا پھرے۔ جس کا فضل اس میں موجود نقص پر غالب ہو تو اس کا نقص اس کے فضل سے دور ہو جاتا ہے‘‘۔[2] امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے اطاعت الٰہی کو کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے خلط نہ کیا ہو سوائے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو جانتا ہوں جس نے اللہ کی نافرمانی کو کبھی اللہ کی اطاعت کے ساتھ خلط نہ کیا ہو۔ پس اگر اس میں طاعت کا عنصر اغلب ہو تو وہ معدل ہے اور اگر اس میں معصیت کا عنصر اغلب ہو تو وہ مجروح ہے‘‘۔[3] بعض لوگ کہتے ہیں کہ اظہار اسلام کے ساتھ فسق ظاہر کا نہ ہونا ہی عدالت کے لئے کافی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، چنانچہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک باب کا عنوان یوں مقرر فرمایا ہے: ’’باب الرد علي من زعم أن العدالة هي إظهار الإسلام و عدم الفسق الظاهر‘‘ اور اس کے تحت فرماتے ہیں: ’’عدل معلوم کی معرفت کسی شخص کی عدالت و اسلام، حصول امانت و نزاہت اور استقامت طرائق پر منحصر ہے۔ اس کی معرفت کے لئے اس شخص کے احوال کی اچھی طرح جانچ پڑتال نیز اس کے افعال کے تتبع، کہ جن سے اس کی عدالت کا گمان غالب ہو، کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ مگر اہل عراق کا دعویٰ ہے کہ عدالت فقط اظہار اسلام اور مسلم کی فسق ظاہر سے سلامتی سے عبارت ہے، لیکن کسی شخص کے اس حال سے اس کا عدل ہونا کب واجب ہوتا ہے؟ -- پس جس چیز کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ ثابت ہوئی اور وہ یہ کہ عدالت ظہور اسلام پر زائد شئ ہے اور اس کا حصول اختبار احوال اور تتبع افعال کا متقاضی ہے، واللہ اعلم‘‘۔ [4] اور علامہ سخاوی رحمہ اللہ شروط عدالت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معدل کے لئے پانچ شرائط سے متصف ہونا ضروری ہے: اول یہ کہ مسلم ہو، دوم صاحب عقل ہو، سوم بالغ ہو، چہارم امور فسق سے مجتنب اور سلیم الفعل ہو یعنی کبائر کا ارتکاب نہ کرے اور صغائر پر مصر نہ ہو اور پنجم ذو مروءۃ ہو‘‘۔ [5]
Flag Counter