الساری‘‘[1]میں، علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’’تدریب الراوی‘‘[2]میں، علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نے ’’قواعد التحدیث‘‘[3]میں اور جناب ظفر احمد عثمانی تھانوی صاحب نے ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘[4]وغیرہ میں بھی علماء کے اس اختلاف کو ذکر کیا ہے۔
فریق اول:
جو فریق اس بات کا قائل ہے کہ ہر مبتدع کی روایت مطلقاً مردود ہے، ان کا خیال ہے کہ اگر مبتدع کی روایات کو قبول کیا جائے تو اس سے اس کی بدعت کو فروغ ملے گا، لہٰذا مبتدع سے کوئی چیز روایت نہیں کرنی چاہیے۔ اس نظریہ کے حامل امام مالک، حسن بصری، ابن سیرین اور قاضی ابوبکر وغیرہ ہیں۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
’’سلف کی ایک جماعت نے مبتدعین سے سماع کی صحت کا انکار کیا ہے کیونکہ جو متأولین کی تکفیر کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ کافر ہیں اور جو متأولین کی تکفیر کے قائل نہیں ان کے نزدیک بھی یہ فساق ضرور ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ ان کی روایات کو قبول نہیں کرتے تھے۔ جو علماء اس طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کفار و فاسق بالتأویل بمثابۃ کافر معاند و فاسق عامد ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ان کی خبر قبول نہ کی جائے۔ ان کی روایتیں ثابت نہیں ہوتیں‘‘ [5]
حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں:
’’ان میں بعض علماء وہ ہیں جو مبتدع کی روایت مطلقاً رد کرتے ہیں کیونکہ بہ سبب بدعت وہ فاسق ہے اور جس طرح مبتدع کفر میں متأول ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح مبتدع مفسق بھی فسق میں متأول و غیر متأول ہوتا ہے‘‘۔ [6]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فمنهم من ردها مطلقا لفسقه ولا ينفعه التأويل‘‘ [7]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’فقيل رده مطلقا‘‘ [8]
حسن بصری سے منقول ہے:
’’لا تجالسوا أهل الأهواء ولا تجادلوهم ولا تسمعوا منهم‘‘ [9]
|