بلا امتیاز روایات قبول کرنے میں کسی قسم کی چشم پوشی یا مسامحت برتی ہے، یا وہ لوگ ہر اہل بدعت سے ہر طرح کی روایات لینے میں کوئی قباحت خیال نہیں کرتے تھے۔
جہاں تک مفسق بدعت کی روایات کے قبول کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں علماء کا اختلاف مشہور ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اختلف أهل العلم في السماع من أهل البدع والأهواء كالقدرية والخوارج والرافضة وفي الاحتجاج بما يروونه‘‘ [1]
شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
’’بالجملة الأئمة مختلفون في أخذ الحديث من أهل البدع والأهواء و أرباب المذاهب الزائغة وقال صاحب جامع الأصول أخذ جماعة من أئمة الحديث من فرقة الخوارج والمنتسبين الي القدر والتشيع والرفض و سائر أصحاب البدع والأهواء وقد احتاط جماعة اٰخرون و تورعوا من أخذ حديث من هذه الفرق ولكل منهم نيات انتهي۔ ولا شك أن أخذ الحديث من هذه الفرق يكون بعد التحري والاستصواب ومع ذلك الاحتياط في عدم الأخذ لأنه قد ثبت أن هؤلاء الفرق كانوا يضعون الأحاديث لترويج مذاهبهم وكانوا يقرون به بعد لاتوبة والرجوع‘‘ [2]
’’مختصر یہ ہے کہ اہل بدعت و ہوا اور باطل مذاہب والوں سے حدیث اخذ کرنے میں اختلاف ہے۔ صاحب جامع الاصول نے کہا ہے کہ محدثین کی ایک جماعت نے خوارج، قدریہ، رافضی و شیعہ اور دیگر اصحاب بدعت سے حدیثیں اخذ کی ہیں اور ایک دوسری جماعت نے احتیاط سے کام لیا ہے اور تمام بدعتی فرقوں سے اخذ حدیث میں اجتناب کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی نیت ہے۔ بلاشبہ ان فرقوں سے حدیثوں کا اخذ کرنا بہت زیادہ تلاش و جستجو کے بعد ہوتا ہے تاہم پھر بھی احتیاط اسی میں ہے کہ ان سے حدیث اخذ نہ کی جائے اس لئے کہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یہ فرق مبتدعہ اپنے مذاہب کی ترویج کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور توبہ و رجوع کے بعد اس کا اقرار کر لیتے تھے‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ نے ’’شرح صحیح مسلم‘‘[3]میں، امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘[4]اور ’’ھدی
|