Maktaba Wahhabi

309 - 363
ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل الفاظ کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش و احتیاط کی گئی ہے۔ دعوت و تبلیغ کی حجت کے اتمام کی غرض سے صرف ناگزیر حالات ہی میں روایت بالمعنی کا سہارا لیا گیا ہے، لیکن وہاں بھی ان ناقلین کی حتی الوسع کوشش یہی رہی ہے کہ الفاظ کی ظاہری ہئیت یا ترتیب میں اگر تھوڑا سا اختلاف ہو جائے تو بھی ادائے منشاء و مقصود میں کوئی فرق واقع نہ ہونے پائے۔ چنانچہ ڈاکٹر لقمان سلفی صاحب فرماتے ہیں: ’’عہد تدوین تک حاملین سنت کے پاس سنت نبوی ان تمام صفات کے ساتھ موجود تھی جو اس کے محفوظ ہونے کے لئے ضروری ہیں، لہٰذا محدثین نے سنت کو صحاح اور مسانید میں اصل الفاظ نبوی یا اس کے قریب تر الفاظ و ترکیب کے ساتھ، معنی کلام کی ادائیگی میں تمام الاداء، غرض و مقاصد کے اظہار میں تمام الایفاء، طریقہ پر مدون کر دیا ہے‘‘۔ [1] روایت بالمعنی کے متعلق علمائے اسلام کا موقف روایت بالمعنی کے متعلق اہل علم حضرات کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں عموماً علمائے کرام کے تین مختلف موقف ملتے ہیں، جو حسب ذیل ہیں: 1- علماء کا ایک گروہ روایت بالمعنی کو مطلقاً ناجائز سمجھتا ہے۔ 2- علماء کا دوسرا گروہ احادیث رسول کی بعینہ روایت کو واجب سمجھتا ہے لیکن اگر حدیث کسی امتی سے متعلق ہو اور اصل معنی و مقصد ادا ہو جاتا ہو تو روایت بالمعنی کو بھی جائز سمجھتا ہے۔ 3- علماء کا تیسرا گروہ روایت باللفظ کو واجب کے بجائے اولیٰ تو سمجھتا ہے لیکن اس کے ساتھ روایت بالمعنی کو بھی مطلقاً جائز قرار دیتا ہے۔ پہلا گروہ – روایت بالمعنی کے مانعین اور ان کے دلائل محدثین، فقہاء اور شافعی علمائے اصول وغیرہم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ روایت بالمعنی مطلقاً ناجائز ہے۔ [2] بعض علماء نے تو اس بارے میں اس قدر شدت اختیار کی ہے کہ بقول علامہ سخاوی: ’’ان کے نزدیک کلمات و حروف کی تقدیم و تاخیر، حروف کا ابدال، حروف کی زیادتی یا حذف، ثقیل کی تخفیف یا خفیف کی تثقیل، منصوب کا رفع یا مرفوع و مجرور کا نصب وغیرہ بھی جائز نہیں ہے، خواہ ان تمام چیزوں سے معانی میں کوئی تغیر واقع نہ ہوتا ہو بلکہ ان میں سے بعض علماء کا روایت باللفظ پر اس قدر اصرار ہے کہ اگر مروی الفاظ باعتبار لغت فصاحت کے خلاف ہوں تو بھی انہی الفاظ پر اقتصار کرنا چاہیے‘‘۔ [3]
Flag Counter