Maktaba Wahhabi

214 - 363
ان کے عہد میں بقید حیات نہیں تھے ان کے ملنے والوں سے یا ان کے توسط سے ان سے اوپر کے لوگوں سے ان کے حالات دریافت کئے اور جس حد تک انسانی امکان میں ہو سکتا تھا ان حاصل شدہ معلومات کی چھان پھٹک کی۔ اس طرح سے وہ عظیم الشان اور فقید المثال فن معرض وجود میں آیا جسے فن اسماء الرجال کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت اصحاب روایت حدیث و آثار کے اسماء، القاب، سوانح، سیرت اور امانت و دیانت کا حال قلمبند کیا گیا، ائمہ محدثین کی ان کے بارے میں رائیں جمع کی گئیں، ان کی جرح و تعدیل کی گئی اور ان طبقات کی تعیین کی گئی۔ گویا جس کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ کوئی بات کہنے کی جرأت کی اس کی ساری زندگی نہایت بے لاگ اور بے رحم نقادوں کا ہدف بن گئی، اور آخرت سے پہلے اس کو سارا حساب اسی دنیا میں دینا پڑ گیا۔ اس فن میں اگر کوئی قوم مسلمانوں کی حریف ہو سکتی تھی تو وہ اہل کتاب ہو سکتے تھے۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ اس طرح کا انتظام اپنے نبیوں کے اقوال کی حفاظت کے لئے تو درکنار انہوں نے اپنے آسمانی صحیفوں تک کے لئے نہیں کیا۔ وہ اس میدان میں نہایت ہی ہیز نکلے۔ ان کی مذہبی کتابوں کی تو وہ حیثیت بھی نہیں ہے جو ہمارے ہاں ہماری تاریخ کی کتابوں کی ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کی بھی روایت ملے گی تو اس کی سند موجود ہو گی اور اس کے لئے کوئی معیار بہرحال مطلوب ہو گا۔ لیکن ان کے ہاں ان کی سب سے بڑی کتاب ’’کتاب مقدس‘‘ کے لئے بھی یہ اہتمام نہیں ملتا۔ اسی طرح انجیلیں حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض حواریوں، جیسے لوقا، یوحنا، مرقس وغیرہ سے منسوب تو ہیں لیکن ان کے ان اولین راویوں تک کے اپنے حالات کسی کو معلوم نہیں۔ انجیلوں کی روایت حواریوں سے کس کس نے کی، اس کا تو سرے سے تذکرہ ہی نہیں ملتا۔ جن قوموں نے اپنے آسمانی صحیفوں کی حفاظت میں کمزوری دکھائی وہ اپنے رسولوں کے اقوال کی حفاظت کا بھلا کیا اہتمام کرتیں! یہاں یہ نقطہ نہایت اہم اور قابل توجہ ہے کہ اس زمانہ میں حدیث کے طالب علموں کو جملہ رواۃ حدیث کے بارے میں جرح و تعدیل کے لئے بہرحال سلف کی تحقیقات پر ہی قناعت کرنی پڑے گی اور مجرد انہی کی تحقیقات کی کسوٹی پر کسی سند کے راویوں کا درجہ متعین کیا جائے گا۔ چنانچہ اب کسی حدیث کی سند کو متقدمین کی فراہم کردہ انہی معلومات کی روشنی میں جانچا پرکھا جائے گا۔ اس لئے کہ ذرائع تحقیق مرور زمانہ سے، اب معدوم ہو چکے ہیں۔ اس میں ہمارے ان اکابرین فن نے تحقیق کی معراج کی بلندیوں کو چھوا ہے اور انسانی امکان کی حد تک اس فن کی خدمت کی ہے‘‘۔[1] سند کی اہمیت و عظمت – اصلاحی صاحب کی نظر میں: سند کی عظمت کا تذکرہ یوں تو جناب اصلاحی صاحب نے زیر مطالعہ باب کی شہ سرخی میں بہت زوروشور سے کیا ہے، لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو پورے باب میں صرف ایک مقام پر ’’روایت کی جانچ کے لئے سند صرف
Flag Counter