میں سے کسی کی روایت قابل قبول نہیں ہونی چاہیے خواہ وہ قسم کھا کے روایت کرے کہ میں سچ ہی روایت کروں گا۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح مسلک ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہے‘‘۔[1]
جناب اصلاحی صاحب کا یہ فرمانا کہ محدثین کرام نے اہل بدعت سے ’’روایات لینے میں بڑی مسامحت برتی ہے‘‘، ’’یہ حضرات اہل بدعت سے روایات لینے میں کوئی قباحت نہیں خیال کرتے تھے‘‘ اور ’’گویا ان کے نزدیک محض مبتدع سے روایات لینے میں کوئی قباحت نہیں تھی‘‘ – دراصل حدیث اور مصطلحات حدیث کی کتب پر آنجناب کی قلت نگاہ کے باعث ہے جیسا کہ آگے ثابت کیا جائے گا، مگر جہاں تک آں موصوف کے اس قول کا تعلق ہے کہ ’’یہ لوگ دوسرے معاملات میں تو بڑے بیدار ثابت ہوئے‘‘ لیکن ’’اس معاملے میں انہوں نے واقعی چشم پوشی سے کام لیا ہے‘‘ – تو ہم جناب اصلاحی صاحب سے پہلے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ آپ کے نزدیک یہ لوگ کن کن معاملات میں ’’بڑے بیدار‘‘ ثابت ہوئے ہیں، جبکہ راقم نے زیر تبصرہ پوری کتاب (مبادئ تدبر حدیث) میں بیشتر مقامات پر محدثین کرام کی مساعی جمیلہ کے تذکرہ کے بجائے ان کی تنقیص ہی درج پائی ہے، بالخصوص اس جملہ میں جس طرح جناب اصلاحی صاحب نے در پردہ محدثین عظام پر مجرمانہ سازش کا الزام لگایا ہے وہ باعث صد افسوس ہے، فإنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔
جناب اصلاحی صاحب کے عائد کردہ مذکورہ بالا الزامات کی حقیقت جاننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے یہ جانا جائے کہ بدعت کیا ہے؟ بدعت و مبتدعین کی کتنی قسمیں ہیں؟ مبتدع کی روایات قبول کرنے کے بارے میں محدثین کا عمومی موقف کیا تھا؟ نیز محدثین نے کن شرائط اور احتیاط کے ساتھ کسی مبتدع کی روایات کو قبول کیا ہے؟ وغیرہ۔
بدعت کی تعریف:
لغوی اعتبار سے ’’بدعت‘‘، ’’بَدَعَ‘‘ بمعنی ’’أَنْشَأ‘‘ (یعنی ایجاد کرنا) کا مصدر ہے۔ [2] جیسا کہ ’’قاموس‘‘ میں ہے۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هو خلاف المعروف عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم فالمبتدع من اعتقد ذلك لا بمعاندة بل بنوع شبهة‘‘ [3]
یعنی ’’بدعت اس اعتقاد کو کہتے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور طریقہ کے برعکس، مخالفت میں نہیں بلکہ بطور شبہ رائج کر دیا گیا ہو‘‘۔
|