یعنی ’’نہ اہل ہوا کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرو، نہ ان کے ساتھ جدال کرو اور نہ ہی ان سے حدیث کا سماع کرو‘‘۔
ہشام نے حضرت حسن کا قول یوں نقل کیا ہے:
’’لا تفاتحوا أهل الأهواء ولا تسمعوا منهم فالتليين بالبدعة باب سلف فيه اختلاف بين العلماء‘‘ [1]
عام الاحول امام ابن سیرین سے نقل فرماتے ہیں:
’’لم يكونوا يسألون عن الإسناد حتي وقعت الفتنة فلما وقعت نظروا من كان من أهل السنة أخذوا حديثه ومن كان أهل البدعة تركوا حديثه‘‘ [2]
’’فتنہ کے وقوع سے قبل تک لوگ اسناد کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے لیکن جب فتنہ کا وقوع ہوا تو دیکھنے لگے کہ کون اہل سنت میں سے ہے تاکہ اس کی حدیث کو قبول کیا جائے اور کون اہل بدعت میں سے ہے تاکہ اس کی حدیث کو چھوڑا جائے‘‘۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ کا ایک دوسرا قوم یوں بھی منقول ہے:
’’إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذونه‘‘ [3]
’’یہ علم دین ہے، پس دیکھ لیا کرو کہ تم اسے کس سے لے رہے ہو‘‘۔
اسحاق بن موسیٰ بھی مبتدع کی حدیث کو بالکل ہی ساقط کر دیا کرتے تھے چنانچہ آں رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’و إن كان أصدق الناس لأن أصحاب الأهواء ليسوا علي الدين الذين ارتضي اللّٰه عزوجل‘‘ [4]
’’خواہ وہ مبتدع بہت ہی سچا ہو کیونکہ تمام بدعتی اس دین پر قائم نہیں ہیں کہ جس دین سے اللہ عزوجل راضی ہوا‘‘۔
محمد بن الحسن بن الفرج الأنماطی بیان کرتے ہیں کہ علی بن حرب کا قول ہے:
’’من قدر أن لا يكتب الحديث إلا عن صاحب سنة فإنهم يكذبون كل صاحب هوي، يكذب ولا يبالي‘‘ [5]
شبابہ بن سوار بیان کرتے ہیں کہ میں نے یونس بن ابی اسحاق سے سوال کیا کہ ’’آپ نے ثویر ابن ابی فاختہ
|