کو کس وجہ سے ترک کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’اس لئے کہ وہ رافضی ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’آپ کے والد نے تو اس سے روایت کی ہے‘‘ انہوں نے کہا: ’’ھو أعلم‘‘۔ [1]
عوام بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھ سے حمیدی نے کہا کہ بشر بن السری جہمی تھا اس کی حدیث لکھنا جائز نہیں ہے‘‘۔ [2]
سعید بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ’’کسی شخص نے سفیان بن عیینہ سے سوال کیا کہ آپ سعید بن ابی عروبہ سے اس قدر کم روایت کیوں لیتے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’میں اس سے کم روایت کیوں نہ لوں جبکہ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’هو رأيي و رأي الحسن و رأي قتادة يعني القدر‘‘ [3]
ابن وہب کا قول ہے کہ ’’میں نے مالک بن انس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قدریہ کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ان سے حدیث لی جائے‘‘۔ [4]
سفیان الثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے:
’’وسمع الحديث من الرجل لا أعتد بحديثه و أحب معرفة مذهبه ليدرك مدي تورطه في البدعة ليصدر عليه حكمه النهائي وفيما يروي من حديث كما فعل من ابن ابي رواد المرجئي و ابراهيم بن ابي يحييٰ القدري إذا نادي في الناس محذرا من مجالستها‘‘ [5]
امام مسلم رحمہ اللہ بھی اہل البدع سے مجانبت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
’’من أهل التهم والمعاندين من اهل البدع‘‘ [6]
حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قاضی ابوبکر باقلانی اور ان کے متبع مفسق مبتدع کی روایت مطلقاً رد کرنے کی جانب گئے ہیں۔ آمدی نے اکثر علماء سے اس بات کی حکایت کی ہے اور ابن الحاجب نے بھی اس کو بالجزم اختیار کیا ہے‘‘۔ [7]
قاضی عیاض بھی مبتدع کی روایت مطلقاً رد کرنے کے قائل ہیں۔ [8]
جو ائمہ مبتدع کی روایت مطلقاً قبول نہ کرنے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ روایات ہیں:
|