یعنی ’’حضرت ابو ہریرہ الدوسی الیمانی حافظ حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے – علم کا خزینہ اور کبار ائمہ فتویٰ میں سے تھے۔ جلیل القدر، عابد اور منکسر المزاج تھے‘‘۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حفظ حدیث اور ادائے حدیث میں سب سے فائق تھے‘‘۔ [1]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، قاضی عیاض اور ابو حامد غزالی رحمہما اللہ کے اس قول پر کہ ’’حضرت ابو ہریرہ مفتی نہیں تھے‘‘، نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمارے نزدیک ضابطہ یہ ہے کہ جو صحابہ کے دور میں فتویٰ دیتا رہا ہو اور اس کو اس سے روکا نہ گیا ہو تو وہ مجتہدین میں سے ہے‘‘۔ [2]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام فتویٰ دیتے رہے۔ ان میں سے جن کے فتاویٰ محفوظ ہیں ایک سو تیس سے زائد ہیں، پھر ان میں سے سات ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے ہر ایک کے فتاویٰ جمع کئے جائیں تو ضخیم کتاب تیار ہو جائے، جبکہ بعض ایسے صحابہ بھی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے فتاویٰ سے ایک چھوٹا مجموعہ (جزء) تیار ہو سکتا ہے – ان کے اسماء گرامی یہ ہیں: ابوبکر صدیق، ام سلمہ، انس، ابو سعید، ابو ہریرہ، عثمان، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن زبیر، ابو موسیٰ، سعد، سلمان فارسی، جابر بن عبداللہ اور معاذ بن جبل۔‘‘ [3]
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقہائے صحابہ اور کبار ائمہ فتویٰ میں سے تھے‘‘۔ [4]
محدث مبارکپوری رحمہ اللہ قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ سے ایک عبرت ناک واقعہ یوں نقل فرماتے ہیں:
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنا بہت بڑی جسارت اور دین کے ساتھ استہزاء ہے۔ ابو ہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بہت بڑے فقیہ تھے۔ میں جامع منصور میں علی بن محمد الدامغانی، قاضی القضاۃ، کی مجلس میں بیٹھا تھا، ہمارے ایک ساتھی نے سنایا کہ ابو ہریرہ پر ایک شخص نے یہ طعن ہمارے سامنے کیا، کہ اچانک ایک بڑا سانپ مسجد کی بیچ کی چھت سے نیچے گرا اور اس شخص کا رخ کیا جو یہ بات کہہ رہا تھا۔ لوگ اٹھ بھاگے اور سانپ
|