Maktaba Wahhabi

117 - 363
وہیں کہیں گم ہو گیا۔ وہ شخص آئندہ اس قسم کی بات کہنے سے خوف زدہ ہو گیا۔‘‘ [1] علمائے احناف میں سے شیخ عبدالقادر قرشی (775ھ) فرماتے ہیں: ’’قال عبدالعزيز في التحقيق كان ابو هريرة فقيها ولم يعدم شيئا من أسباب الاجتهاد وقد كان يفتي في زمن الصحابة وما كان يفتي في ذلك الزمان الا فقيه مجتهد انتهي۔ قلت ابو هريرة رضي اللّٰه عنه من فقهاء الصحابة ذكره ابن حزم في الفقهاء من الصحابة وقد جمع شيخنا شيخ الإسلام تقي الدين السبكي جزءا في فتاويٰ ابي هريرة رضي اللّٰه عنه سمعته عليه‘‘ [2] یعنی ’’شیخ عبدالعزیز کتاب التحقیق میں فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ فقیہ تھے۔ ان میں اسباب اجتہاد میں سے کوئی چیز معدوم نہ تھی۔ وہ عہد صحابہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے، حالانکہ اس زمانہ میں سوائے فقیہ مجتہد کے کوئی فتویٰ نہ دیتا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقہائے صحابہ میں سے تھے۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ فقہائے صحابہ میں کیا ہے۔ ہمارے شیخ شیخ الاسلام تقی الدین السبکی رحمہ اللہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کو ایک مستقل جزء میں جمع کیا ہے، اس جزء کا سماع میں نے اپنے شیخ سے کیا ہے‘‘۔ شیخ علاء الدین فرماتے ہیں: ’’ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ابو ہریرہ فقیہ نہیں تھے بلکہ آپ فقیہ تھے اور اسباب اجتہاد میں سے کوئی شئ بھی ان میں ناپید نہ تھی۔ وہ عہد صحابہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں صرف فقیہ و مجتہد ہی فتویٰ دیتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے روزہ میں بھول کر کھا پی لینے والے کے بارے میں حدیث ابی ہریرہ پر عمل کیا ہے، حالانکہ وہ حدیث قیاس کے خلاف ہے۔ امام رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ: اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو میں قیاس پر عمل کرتا‘‘۔ [3] ابن أمیر الحاج الحلبی لکھتے ہیں: ’’اسباب اجتہاد میں سے کوئی بھی سبب ان میں معدوم نہ تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں فتویٰ دیتے رہے اور اس زمانہ میں مجتہد ہی فتویٰ دیا کرتے تھے۔ آٹھ سو رواۃ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین ان سے روایت کرتے ہیں کہ جن میں حضرت ابن عباس، جابر اور انس بھی ہیں‘‘۔ [4]
Flag Counter