محشی اصول الشاشی لکھتے ہیں:
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ مجتہد تھے، ابن الھمام نے ’’التحریر‘‘ میں ان کے فقیہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بحرین کے قاضی تھے۔ متن میں جو لکھا ہے کہ وہ غیر فقیہ تھے محققین علمائے احناف کے ہاں یہ ایک مرجوح بات ہے‘‘۔ [1]
جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنا غلط بات ہے۔ وہ ان فقہاء میں سے ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں فتویٰ دیتے تھے جیسا کہ ابن الھمام نے ’’تحریر الأصول‘‘ میں اور ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الإصابۃ‘‘[2]میں وضاحت کی ہے‘‘۔[3]
جناب عبدالجبار جے پوری صاحب ’’فصول الحواشی شرح أصول الشاشی‘‘ سے ناقل ہیں:
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ تھے۔ اسباب اجتہاد میں سے کوئی بھی سبب ان میں مفقود نہیں تھا۔ صھابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں فتویٰ دیتے تھے اور اس زمانہ میں فیہ مجتہد ہی فتویٰ دیتے تھے مومن مخلص تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہم – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے حفظ کی دعا کی تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کے لئے دعاء حفظ قبول فرمائی اور دنیا میں ان کا نام مشہور ہوا‘‘۔ [4]
جناب سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’اکابر صحابہ کے بعد مدینہ طیبہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زیادہ تر یہی چار بزرگوار فقہ و فتاویٰ کی مجلس کے مسند نشین تھے‘‘۔ [5]
علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
’’—إنا لا نسلم أن أبا هريرة لم يكن فقيها بل كان فقيها ولم يعدم شيئا من اسباب الاجتهاد وقد كان يفتي في زمان الصحابة وماكان يفتي في ذلك الزمان إلا فقيه مجتهد وقد دعا النبي صلي اللّٰه عليه وسلم له بالحفظ فاستجاب اللّٰه له فيه حتي انتشر في العالم ذكره و حديثه وقد رويٰ جماعة من الصحابة عند فلا وجه لرد
|