حديثه بالقياس‘‘ [1]
یعنی ’’(راوی میں اشتراط فقہ کے مستحدث ثابت ہونے کی بنا پر) ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے بلکہ وہ فقیہ تھے۔ اسباب اجتہاد میں سے کوئی شئ ان کے اندر معدوم نہ تھی۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے، حالانکہ اس زمانہ میں سوائے فقیہ مجتہد کے کوئی فتویٰ نہ دیتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حافظہ کے لئے دعاء فرمائی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں قبول فرمایا تھا حتی کہ ان کا ذکر و احادیث تمام دنیا میں پھیلیں اور صحابہ میں سے ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے، پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کی حدیث کو قیاس کے ساتھ رد کیا جائے‘‘۔
شیخ عبدالمنعم صالح العلی، ابن الھمام رحمہ اللہ سے ناقل ہیں:
’’راوی صحابی یا تو مجتہد ہے مثلاً خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم اور عبادلہ رضی اللہ عنہم پس ان کی روایت مطلقاً قیاس پر مقدم ہے، اور یا عادل ضابط ہے مثلاً ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ، سلمان رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ تو ان کی روایت بھی مقدم ہو گی إلا یہ کہ قیاس کے بالکل مخالف ہو۔ مگر یہ عیسیٰ بن ابان اور قاضی ابو زید کا ہی قول ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجتہد ہیں۔ عیسیٰ اور ابو زید کے علاوہ تمام فقہائے حنفیہ حدیث کو مطلقاً قیاس پر مقدم جانتے ہیں‘‘۔ [2]
پس حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فقیہ و مجتہد ہونا محقق ہوا، فالحمدللہ۔
جناب محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے صحت حدیث پرکھنے میں فقہ راوی کے عمل دخل کے متعلق کیا ہی عمدہ بات فرمائی ہے:
’’حدیث کی صحت میں فقہ راوی کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے لئے حفظ و ضبط کے بعد صدق اور مروت کی ضرورت ہے۔ فقہ راوی کا مفہوم سے تعلق ہے، اگر حدیث کا متن مختلف الفاظ سے مروی ہو تو فقہ راوی کی بنا پر بعض الفاظ کو ترجیح دی جا سکتی ہے، لیکن فقہ راوی کی بنا پر نہ کوئی متن گھڑا جا سکتا ہے، نہ کسی صحیح متن کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ اس شرط سے شرح معانی میں کام تو لیا جا سکتا ہے لیکن اس کی بنا پر اقرار یا انکار حدیث کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں۔ صحابہ کا مقام تو اس سے کہیں بلند ہے کہ قاضی عیسیٰ بن ابان، سرخسی اور دبوسی ایسے عجمی حضرات ان کی زبان دانی پر بحث کریں الخ ‘‘۔ [3]
|