Maktaba Wahhabi

328 - 363
و أبو حنيفة و جماهير الفقهاء و معظم أهل الحديث‘‘ [1] علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں کہ وحی کی ان دو قسموں میں سے قرآن کا تعلق دوسری قسم وحی سے اور سنت کا تعلق پہلی قسم وحی سے ہے جیسا کہ وارد ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام جس طرح قرآن کریم لے کر نازل ہوتے تھے اسی طرح سنت کے ساتھ بھی نازل ہوتے تھے۔ پس اس سے سنت کی روایت بالمعنی جائز ہوئی کیونکہ خود جبریل علیہ السلام نے اسے بالمعنی ادا فرمایا، لیکن قرآن کی بالمعنی روایت جائز نہیں ہے کیونکہ جبریل علیہ السلام نے اسے باللفظ ہی ادا کیا تھا اور بالمعنی اس کو وحی کرنا جائز نہ سمجھتے تھے‘‘۔ [2] شیخ ابن ھمام حنفی رحمہ اللہ کے استاذ شیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’هذا هو الظاهر من أحوال الصحابة و رواة العدول لأن الأخبار وردت بلسانهم فعلمهم باللسان يمنع عن غفلتهم عن المعني و عدم فهمهم إياه‘‘ [3] یعنی ’’صحابہ کرام اور دوسرے عدول راویوں نے الفاظ میں جب تغیر کیا ہے تو ایسے طریقے سے کیا ہے کہ اصل معنی میں فرق نہیں ہونے پایا کیونکہ وہ صاحب زبان تھے، پس روایت بالمعنی میں ایسا تغیر نہیں کرتے تھے کہ اصل معنی ادا نہ ہو سکے‘‘۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس میں کافی اختلاف ہے۔ اکثر اس بات کے قائل ہیں کہ ایسا اس شخص کے لئے جائز ہے جو عربی زبان کا عالم، اسلوب کلام کا ماہر، ترکیبوں کے خواص اور خطاب کے مفہومات سے واقف ہو تاکہ زیادتی اور کمی کے ذریعہ غلطی نہ کر سکے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مفرد الفاظ میں جائز ہے، مرکبات میں نہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے لئے جائز ہے جس کو حدیث کے الفاظ زبانی یاد ہوں تاکہ اس میں تصرف پر وہ پوری طرح قادر ہو اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے لئے جائز ہے جسے حدیث کے معانی تو یاد ہوں لیکن الفاظ بھول گئے ہوں کیونکہ ایسا کرنا تحصیل احکام کی بنا پر ضروری ہے، اور جسے الفاظ حدیث یاد ہوں اس کے لئے روایت بالمعنی جائز نہیں اس لئے کہ اس کو اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ اختلاف جواز و عدم جواز میں ہے۔ جہاں تک بغیر کسی تصرف کے الفاظ حدیث روایت کرنے کا تعلق ہے تو اس کی افضیلت میں سب کا اتفاق ہے الخ‘‘۔ [4] مگر قاضی عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے:
Flag Counter