’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نضر اللّٰه امراً سمع منا حديثا فبلغه كما سمع منا فإنه رب مبلغ هو أوعي له من سامع‘‘ [1] یہ حدیث زید بن ثابت اور جبیر بن مطعم سے بھی مروی ہے۔ حکیم ترمذی کا قول ہے کہ علماء کا تقاضہ ادائیگی اور علم کی تبلیغ ہے۔ پس اگر ان پر وہی الفاظ جو کہ ان کی سماعت تک پہنچے ہوں بعینہ بلا کم و بیش اور بلا تقدیم و تاخیر ادا کرنا ملازم ہوتا تو وہ انہیں بھی کتابوں میں جمع کرتے رہتے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے ساتھ معاملہ فرمایا کہ جیسے ہی وحی نازل ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پر اس توکل کے باوجود کہ [إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ] [2] اور [وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ]، [3] کاتب کو بلوا کر فوراً لکھوا دیا کرتے تھے، چنانچہ وحی کتابی شکل میں محروس ہو گئی۔ اگر حدیث کے سلسلہ میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہوتا تو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ضرور قلمبند کر دیتے، مگر کیا ان میں سے کسی کے متعلق ایسا کرنے کے بارے میں ہمارے پاس کوئی خبر پہنچی ہے؟ البتہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں ایک صحیفہ تیار کرنے کی اجازت طلب کی تھی تو آں صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ مگر ساری احادیث و اخبار جو صحابہ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھیں انہیں ان لوگوں نے یاد رکھا اور اپنی یادداشت کی بنیاد پر ہی ادا کیا۔ پس بوقت ادائیگی وہ تقدیم و تاخیر اور روایت کے الفاظ میں اختلاف کرتے نظر آتے ہیں، اگرچہ ان کے اس اختلاف سے حدیث کے معانی متغیر نہیں ہوتے۔ ان صحابہ میں سے کسی نے اس طرح کی ادائیگی کو نہ منکر جانا اور نہ ہی اس میں کوئی حرج پایا – اگر کوئی شخص کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہو اور اسے اپنے بعد کے لوگوں کو بیان کرنا چاہے تو اس کے لئے اس حدیث کے الفاظ کو بدلنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کے معنی نہ بدلتے ہوں‘‘۔ [4]
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أما العالم بالفرق بين الظاهر والأظهر والعام والأعم فقد جوز له ذلك الشافعي
|