إجازة رواية الحديث علي المعني‘‘ میں حدیثیں نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض شرائط کے ساتھ روایت بالمعنی کی اجازت دی ہے، مثلاً بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ:
’’قلنا لرسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: بأبينا أنت و أمنا يا رسول اللّٰه إنا لنسمع الحديث فلا نقدر علي تأديته كما سمعناه قال إذا لم تحلوا حراما ولا تحرموا حلالا فلا بأس‘‘ [1]
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان، ہم آپ سے حدیث سنتے ہیں، لیکن اس کو ٹھیک ٹھیک، اس طریقہ سے ادا نہیں کر سکتے جس طرح آپ سے سنا تھا۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: اگر تم نقل اس طرح سے کرو کہ کوئی حرام، حلال نہ بن جائے اور کوئی حلال، حرام نہ بن جائے تو کوئی حرج نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نوع کا تصرف معنوی نہ ہو جائے تو روایت بالمعنی میں کوئی حرج نہیں۔ [2]
مذکورہ بالا حدیث کی تخریج امام طبرانی رحمہ اللہ نے ’’المعجم الکبیر‘‘[3]میں اور ابن مندہ رحمہ اللہ نے ’’معرفۃ الصحابہ‘‘[4]میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے طریق ہی سے یوں فرمائی ہے:
’’حدثنا وليد بن سلمة الفلسطيني قال أخبرني يعقوب بن عبداللّٰه بن سليمان بن أكيمة الليثي عن أبيه عن جده قال: أتينا النبي صلي اللّٰه عليه وسلم فقلنا له بآبائنا و أمهاتنا يا رسول اللّٰه إنا نسمع منك الحديث فلا نقدر أن نؤديه كما سمعنا قال إذا لم تحلوا حراما ولم تحرموا حلالا و أصبتم المعني فلا بأس‘‘
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تخریج ان الفاظ کے ساتھ بھی فرمائی ہے:
’’قلنا يا رسول اللّٰه إنا نسمع منك الحديث فلا نقدر علي تأديته كما سمعنا قال إذا لم تحرموا حلالا ولا تحلوا حراما و أصبتم المعني فلا بأس‘‘ [5]
ابن الحاجب، حافظ سخاوی اور علامہ سیوطی وغیرہم رحمہم اللہ نے بھی اس حدیث کو معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔ [6] اس حدیث کے متعلق امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لم أر من ذكر يعقوب ولا أباه‘‘ [7] امام سخاوی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’یہ حدیث مضطرب اور غیر صحیح ہے، بلکہ جوزقانی [8] اور ابن الجوزی نے تو اسے موضوعات میں روایت کیا ہے، پس محل نظر ہے‘‘۔ [9]
|