Maktaba Wahhabi

191 - 363
فَقَدْ بَهَتَّهُ‘‘ [1] اس آخر الذکر حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کسی مسلمان کے ایسے وصف کا ذکر کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہو غیبت کہلاتا ہے، لہٰذا راویوں کے معایب کا ذکرنا کرنا جسے محدثین ’’تجریح الرواۃ‘‘ کہتے ہیں جائز نہیں ہونا چاہیے۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ایک جماعت نے کہ جن کا تعلق احادیث نبوی سے نہیں ہے، اس (آخر الذکر) حدیث سے احتجاج کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بعض رواۃ کے متعلق ہمارے ائمہ کا یہ قول کہ: ’’فلان ليس بشيء‘‘ ’’فلان ضعیف‘‘ پس اگر وہ اس قول کے مشابہ ہو تو یہ غیبت ہے ورنہ تہمت اور بہتان عظیم ہے‘‘۔ [2] مگر امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ وہ غیبت نہیں ہے کہ جس سے منع فرمایا گیا ہے‘‘۔ [3] جمہور محدثین و فقہاء اور جملہ معتبر علماء کا قول ہے کہ ضعفاء پر تجریح نصیحت دین بلکہ واجبات دین میں سے ہے، چنانچہ خود انہوں نے اس امر کا التزام کیا اور رواۃ حدیث اور ناقلین اخبار کے عیوب کو واضح کیا ہے۔ امام ابن حبان اور خطیب بغدادی رحمہما اللہ نے تو اس پر جمہور محدثین و فقہاء کا اجماع نقل کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’مسلمین قاطبہ کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ احتجاج کے لئے صرف صدوق عاقل سے ہی سماع حدیث واجب ہے، پس ان کے اس اجماع میں ان رواۃ پر جرح کی اباحت کی دلیل موجود ہے جو روایت میں صدوق نہیں ہوتے الخ‘‘۔ [4] امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’المدخل‘‘[5]میں، امام نووی رحمہ اللہ نے ’’شرح صحیح مسلم‘‘[6]میں اور امام سخاوی رحمہ اللہ نے ’’فتح المغیث‘‘[7]میں اس اجماع کو توقیراً نقل کیا ہے۔ فقہاء و محدثین کے اس اجماع پر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت اور صحیح احادیث نبوی دلالت کرتی ہیں: [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ] [8] یعنی ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کر لیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے‘‘۔
Flag Counter