حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ بغرض احتیاط فاسق کی خبر کے تثبت کا حکم دیتا ہے‘‘۔ [1]
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ فاسق کی خبر غیر مقبول ہے‘‘۔[2]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشاد ہے کہ: ’’لَيْسَ لِفَاسِقٍ غِيبَةٌ‘‘[3]یعنی ’’فاسق کی غیبت نہیں ہوتی‘‘ اور ’’أَتَرعُونَ عَنْ ذِكْرِ الْفَاجِرِ ! اذْكُرُوهُ بِمَا فِيهِ كَي يَعْرِفَهُ النَّاسُ وَيَحْذَرَهُ النَّاسُ‘‘ [4]
اور تعدیل کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’إن عبداللّٰه رجل صالح‘‘[5]یعنی ’’عبداللہ بن عمر صالح شخص ہیں‘‘۔ جن بعض اور احادیث سے جرح کی صحت اور جواز پر استدلال کیا جاتا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
1- ’’(عن عائشة قالت: )اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ائْذَنُوا لَهُ، بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ، أَوِ ابْنُ العَشِيرَةِ. فَلَمَّا دَخَلَ أَلاَنَ لَهُ الكَلاَمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قُلْتَ الَّذِي قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الكَلاَمَ؟ قَالَ: أَيْ عَائِشَةُ، إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ، أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ، اتِّقَاءَ فُحْشِهِ‘‘ [6]
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اس حدیث میں فسق یا فحش وغیرہ کے معلن کی غیبت کا جواز موجود ہے، آں رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’في الحديث جواز غيبة المعلن بالفسق أو الفحش ونحو ذلك من الجور في الحكم والدعاء إلي البدعة مع جواز مداراتهم اتقاء شرهم مالم يؤد ذلك إلي المداهنة في دين اللّٰه تعاليٰ الخ‘‘ [7]
|