Maktaba Wahhabi

193 - 363
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وهذا الحديث أصل في المداراة وفي جواز غيبة أهل الكفر والفسق ونحوهم، واللّٰه أعلم‘‘ [1] یعنی ’’یہ حدیث مدارات اور اھل الکفر والفسق وغیرہ کی غیبت کے جواز کے بارے میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس خبر میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ دیانت کے ساتھ کسی کے ان عیوب کی خبر دینا کہ جو اس میں موجود ہوں، غیبت کی جنس سے نہیں ہے۔ اگر یہ غیبت ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز ’’بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ، أَوِ ابْنُ العَشِيرَةِ‘‘ (یعنی اپنے قبیلہ کا کیا ہی برا آدمی ہے) نہ فرماتے۔ غیبت تو وہ ہوتی ہے جب کہ قائل مقول کے بارے میں ارادتاً عیب جوئی کرے، جبکہ ہمارے ائمہ رحمۃ اللہ علیہم جب ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں اور غیر عدول پر جرح کا اطلاق کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ ان رواۃ کی حدیث سے احتجاج نہ کیا جائے۔ ان کا ارادہ محض ان کے عیوب کا افشاء نہیں ہوتا۔ اگر قائل کسی کے متعلق کوئی خبر دے اور وہ بارادہ طعن و ثلب نہ ہو تو یہ غیبت نہیں ہے‘‘۔ [2] علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کے متعلق یہ ارشاد فرمانا کہ: ’’بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مخبر کا کسی شخص میں موجود ایسے عیوب کا بیان کرنا کہ جن کا بتانا دین کے لئے سائل کی نصیحت کے لحاظ سے ضروری ہو، غیبت کے حکم میں نہیں آتا‘‘۔ [3] 2- ’’عن عائشة قالت قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: ما أظُنُّ فُلانًا وفُلانًا يَعْرِفانِ مِن دِينِنا شيئًا ‘‘ (رواه البخاري) -- قال قال الليث بن سعد أحد رواة هذا الحديث: ’’هذان الرجلان كانا من المنافقين‘‘ [4] امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’المدخل‘‘ میں تجریح الرواۃ کے جواز پر اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جو فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس کے متعلق مروی ہے کہ ان کے پہلے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا، عدت ختم ہونے پر حضرت معاویہ اور ابو جہم
Flag Counter