Maktaba Wahhabi

121 - 363
بن مالک رضی اللہ عنہم جیسے جاں نثاران رسول کے غیر فقیہ ہونے کا تذکرہ تو ہم اوائل بحث ہی میں کر چکے ہیں، اس کی چند مزید مثالوں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ [1] پر اور علقمہ کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر ترجیح دینا علمائے احناف کی معتبر کتب میں مذکور ہے۔ [2] اسی طرح مسئلہ رفع الیدین کے بارے میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا جواب دیتے ہوئے یہاں تک لکھا گیا ہے کہ وہ ایک بدو، جنگلی اور شرائع اسلام سے لاعلم تھے (اعرابی لا یعرف شرائع الاسلام)۔ [3]اور یزید بن الاصم، کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ (یعنی اگر انہیں صحابیت کا شرف حاصل نہ ہو تو بھی کبار تابعین میں سے ضرور ہیں)، کو علامہ سرخسی نے ’’غیر فقیہ‘‘ بتا کر غیر معتبر بنا دیا ہے، [4] حالانکہ ابن سعد رحمہ اللہ وغیرہ نے انہیں: ’’ثقۃ کثیر الحدیث قرار دیا ہے‘‘ فَإِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس مقام پر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ روایت بالمعنی کی صورت میں فقہ راوی صرف ان احادیث میں سبب ترجیح ہو سکتا ہے کہ جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مروی ہیں مگر جن احادیث میں آں صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف افعال و اعمال کی کیفیات یا تقریر مروی ہیں، ان میں فقہ راوی یا روایت بالمعنی کی قید بے معنی ہو گی کیونکہ ایسی صورت میں روایت باللفظ کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے، یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آخر فقاہت راوی سے فقہائے حنفیہ کی کیا مراد ہے؟ اگر فقاہت سے ان کی مراد کسی راوی کا مسائل فرعیہ پر زیادہ مطلع ہونا ہے تو یہ بات محتاج دلیل ہونے کے ساتھ مہمل بھی ہے کیونکہ مسائل فرعیہ کی کثرت و قلت اطلاع کو کسی روایت کی صحت و عدم صحت میں کیا دخل ہو سکتا ہے؟ اختتام بحث پر ہم علمائے حنفیہ سے بالعموم اور جناب اصلاحی صاحب سے بالخصوص یہ پوچھنا چاہیں گے کہ (جناب اصلاحی صاحب کے نزدیک) ’’تدبر حدیث کے نقطہ نظر سے‘‘ ممتاز ہونے (اور فقہائے حنفیہ کے نزدیک فقہ راوی) سے کیا مراد ہے؟ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ فلاں راوی زیادہ ذہین و فطین یا زیادہ غوروفکر کرنے والا ہے اور کسی بات کے معنی و مفہوم کو بمقابلہ دوسرے راویوں کے جلد اور زیادہ اچھی طرح سمجھ جاتا ہے تو ہم کہیں گے کہ اگر کسی شخص کو نہ صحابہ کرام کے فضل و کمال کی جانچ پرکھ کا موقع ملا اور نہ ہی کوئی ایسی سبیل
Flag Counter