کی خبر نہیں دیتے کہ جو جارحین کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے، آپ رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
’’وهذا أبعد ممن توهمه لأن المعدلين و إن كثروا ليسوا يخبرون عن عدم ما أخبر بي الجارحون ولو أخبروا بذلك و قالوا نشهد أن هذا لم يقع منه لخرجوا بذلك من أن يكونوا أهل تعديل أو جرح لأنها شهادة باطلة علي نفي ما يصح و يجوز وقوعه و إن لم يعلموه فثبت ما ذكرناه‘‘ [1]
3- اگر جرح و تعدیل متعارض ہوں تو ان میں سے کسی قول کو ترجیح نہ دی جائے گی إلا بمرحج۔ ابن الحاجب نے اس کی حکایت کی ہے۔ [2]
امام سخاوی رحمہ اللہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ:
’’معدل کے پاس بسبب کثرت، زیادہ قوت ہوتی ہے اور جارح اطلاع علی الباطن کے سبب زیادہ قوت کا حامل ہوتا ہے‘‘۔ [3]
لیکن بقول حافظ عراقی رحمہ اللہ ’’علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا کلام اس تیسرے قول کی بھی نفی کا متقاضی ہے‘‘۔ [4]
بعض علماء کا قول ہے کہ: ’’ان میں سے جو أحفظ ہو اس کو مقدم سمجھا جائے گا‘‘۔ [5]
لیکن متاخرین علمائے حنفیہ ایسے مختلف فیہ راوی کی تحسین کے قائل ہیں چنانچہ بقول جناب ظفر احمد عثمانی تھانوی صاحب:
’’اگر کوئی راوی مختلف فیہ ہو یعنی بعض نے اسے ثقہ بتایا ہو اور بعض نے ضعیف تو وہ حسن الحدیث ہوتا ہے‘‘۔ [6]
اس حنفی اصول پر مبنی تحسین رواۃ کی مثالیں دیکھنا مطلوب ہوں تو ’’نصب الرایہ للزیلعی‘‘، [7]
|