اس بارے میں تین مختلف اقوال پائے جاتے ہیں:
1- جرح کو مطلقاً مقدم سمجھا جائے گا خواہ معدلین کی تعداد جارحین کے مقابلہ میں زیادہ ہی ہو۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اس قول کو ’’جمہور علماء سے‘‘ نقل کیا ہے۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جرح کو اولیٰ سمجھنا ہی ’’صحیح‘‘ ہے۔ اصولیین میں سے فخر الدین اور آمدی وغیرہ نے اس قول کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ ابو عمرو بن الحاجب نے اسے ’’عن الأکثر‘‘ نقل کیا ہے۔ [1] ابن عساکر دمشقی رحمہ اللہ اس پر اہل علم کا اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’أجمع أهل العلم علي تقديم قول من جرح راويا علي قول من عدله و اقتضت حكاية الاتفاق في التساوي كون ذلك أولي فيما إذا زاد عدد الجارحين‘‘ [2]
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس تقدیم کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس کی علت یہ ہے کہ جارح اس امر باطن کی خبر دیتا ہے جس کا کہ اس کو علم ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ معدل کے قول کی بایں طور تصدیق بھی کرتا ہے کہ راوی کی جس ظاہری حالت کا معدل کو علم ہے اسے وہ جارح بھی جانتا ہے لیکن بتفرد وہ (یعنی جارح) اس چیز کو بھی جانتا ہے جسے کہ معدل نہیں جانتا۔ چونکہ ظاہری عدالت کی جو خبر معدل دیتا ہے، جارح کے قول کی صداقت کہ جس کی وہ خبر دیتا ہے، کی نفی نہیں کرتی۔ لہٰذا واجب ہے کہ جرح تعدیل سے اولی ہو‘‘۔ [3]
لیکن امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جرح کی تقدیم کا حکم اس کے مفسر ہونے کے ساتھ مقید ہونا چاہیے۔ اگر جرح غیر مفسر ہو تو تعدیل کو مقدم کیا جائے گا جیسا کہ علامہ مزی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے‘‘۔ [4]
2- گر معدلین کی تعداد زیادہ ہو تو تعدیل معتبر سمجھی جائے گی کیونکہ کثرت، ظن کو تقویت دیتی ہے اور قوی ظن پر عمل واجب ہوتا ہے، جیسا کہ دو متعارض حدیثوں کے درمیان ظن غالب کو ترجیح دی جاتی ہے۔ [5] لیکن علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بات خطا اور واھمہ سے عبارت ہے کیونکہ اگرچہ معدلین کثیر ہوں اس امر کے عدم
|