رجب، الکفایۃ للخطیب اور تدریب الراوی للسیوطی وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔[1]
مسعر نے عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے کہ:
’’إنا لا نستطيع أن نحدثكم الحديث كما سمعناه ولكن عموده و نحوه‘‘ [2]
علی بن خشرم نے بیان کیا کہ:
’’ابن عیینہ ہم سے حدیث بیان کرتے تھے۔ اگر ان سے پھر وہی حدیث پوچھی جاتی تو ہمیں پہلے سے مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کر دیتے تھے حالانکہ ان کے معانی ایک ہی ہوتے تھے‘‘۔ [3]
قتیبہ بیان کرتے ہیں:
’’چار حفاظ: اسماعیل بن علیہ، عبدالوارث، یزید بن زریع اور وہیب باللفظ ادا کرتے تھے جبکہ حماد بن زید بالمعنی روایت کرتے تھے‘‘۔ [4]
ابو اویس سے مروی ہے:
’’سألنا الزهري عن التقديم والتأخير في الحديث فقال إن هذا يجوز في القرآن فكيف به في الحديث؟ إذا أصبت معني الحديث فلم تحل به حراما ولم تحرم به حلالا فلا بأس به‘‘ [5]
’’ہم نے زہری سے حدیث میں تقدیم و تاخیر کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا: جب یہ قرآن میں جائز ہے تو حدیث میں کیوں (نہیں ہو سکتی؟) اگر حدیث کے درست معنی ادا ہو جائیں اور اس سے کوئی حلال چیز حرام اور کوئی حرام چیز حلال نہ ہو تو (ایسا کرنے میں) کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔
سعید بن رحمۃ الأصحبی بیان کرتے ہیں:
’’محمد بن مصعب القرقسانی کہا کرتے تھے: ’’أيش تشددون علي أنفسكم؟ إذا أصبتم المعني فحسبكم‘‘ [6]
ازہر بن جمیل بیان کرتے ہیں کہ ہم یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کے پاس تھے۔ ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جسے
|