Maktaba Wahhabi

325 - 363
’’روایت بالمعنی میں اختلاف مشہور ہے۔ اکثر محدثین روایت بالمعنی کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس کے جواز کے لئے جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان میں سب سے قوی دلیل یہ ہے کہ وہ عجمی عالم جو علم حدیث اور عربی زبان کا ماہر ہو وہ تبلیغ و اشاعت کے لئے عربی الفاظ کی ترجمانی اپنی مادری زبان میں کر سکتا ہے اور جب عربی زبان کی ترجمانی کسی عجمی زبان میں جائز ہے تو عربی کی خود عربی زبان ہی میں ترجمانی اولیٰ ہوئی (لہٰذا کس طرح ناجائز ہو سکتی ہے؟)۔ بعض کے نزدیک مفرد الفاظ میں روایت بالمعنی جائز ہے لیکن مرکبات میں منع ہے۔ بعض کے نزدیک جسے حدیث کے اصل الفاظ یاد ہوں اس کے لئے جائز ہے کہ وہ پوری طرح اس میں ہونے والے تصرف پر قادر ہو، لیکن بعض نے اس کے برعکس یوں فرمایا ہے کہ جس شخص کو حدیث کے اصل الفاظ بھول جائیں اور ان کا مفہوم اچھی طرح ذہن نشین ہو وہ استنباط مسائل کے لئے روایت بالمعنی کر سکتا ہے اور جب الفاظ یاد ہوں تو اس کے لئے بلفظہ روایت کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ ساری بحث جواز اور عدم جواز سے تعلق رکھتی ہے ورنہ افضل بات یہی ہے کہ ہر حدیث کو اپنے اصل الفاظ میں بلا تصرف بیان کرنے کی کوشش کی جائے‘‘۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ويدل علي ذلك أيضا اتفاق الأمة علي أن للعالم بمعني خبر النبي صلي اللّٰه عليه و آله وسلم وللسامع بقوله أن ينقل معني خبره بغير لفظه و غير اللغة العربية و أن الواجب علي رسله و سفرائه إلي أهل اللغات المختلفة من العجم وغيرهم أن يرووا عنه ما سمعوه و حملوه مما أخبرهم به و تعبدهم بفعله علي ألسنة رسله لا سيما إذا كان السفير يعرف اللغتين فإنه لا يجوز أن يكل ما يرويه إلي ترجمان وهو يعرف الخطاب بذلك اللسان لأنه لا يأمن الغلط و قصد التحريف علي الترجمان فيجب أن يرويه بنفسه و إذا ثبت ذلك صح أن القصد برواية خبره و أمره و نهيه إصابة معناه و امتثال موجبه دون إيراد نفس لفظه و صورته و علي هذا الوجه لزم العجم وغيرهم من سائر الأمم دعوة الرسول إلي دينه والعلم بأحكامه‘‘ [1] امام غزالی، ابن الحاجب اور آمدی وغیرہم نے بھی احکام شریعت کو عجمی زبانوں میں ترجمہ و تشریح کرنے کے جواز پر ائمہ کے اتفاق کی طرف اشارہ کیا ہے بشرطیکہ مترجم ان زبانوں کا خوب جاننے والا ہو۔ ان کا قول ہے کہ جب دوسری زبانوں میں بالمعنی الفاظ کا بدلنا جائز ہے تو خود عربی ہی میں یہ ابدال بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ [2]
Flag Counter