پس معلوم ہوا کہ محققین نے علمائے جرح کی اپنے بعض معاصر علماء پر بلا حجت جرح کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔ اس بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و أبعد ذلك كله من الاعتبار تضعيف من ضعف بعض الرواة بأمر يكون الحمل فيه علي غيره أو للتحامل بين الأقران و أشد من ذلك تضعيف من ضعف من هو أوثق منه أو أعلي قدرا أو أعرف بالحديث فكل هذا لا يعتبر به‘‘ [1]
امام عقیلی رحمہ اللہ کے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ (شیخ امام بخاری رحمہ اللہ) کو اپنی کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں ذکر کرنے پر امام ذہبی رحمہ اللہ تعقباً لکھتے ہیں:
’’ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء فبئس ما صنع – أفما لك عقل يا عقيلي أتدري فيمن تتكلم‘‘ [2]
یعنی ’’عقیلی رحمہ اللہ نے انہیں الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور بہت برا کیا ہے – عقیلی کیا تمہیں عقل نہیں؟ جانتے ہو تم کن لوگوں کے بارے میں کلام کر رہے ہو؟‘‘۔
18- وہ جرح جو ازراہ مذاق صادر ہوئی ہو وہ بھی معتبر نہیں ہے، مثلاً ایک مرتبہ عفان بن مسلم، علی بن مدینی اور ابوبکر بن ابی شیبہ بیٹھے ہوئے تھے، گفتگو چل رہی تھی، اتنے میں عفان بن مسلم نے کہا: ’’ثلاثة يضعفون في ثلاثة: علي بن المديني في حماد بن زيد و أحمد في ابراهيم بن سعد و ابن أبي شيبة في شريك‘‘ تو علی بن مدینی رحمہ اللہ نے ہنس کر کہا: ’’و عفان في شعبة‘‘ [3]
19- بعض راویوں کی کچھ مخصوص حالتیں ہوتی ہیں، کچھ حالات میں وہ ثقہ اور کچھ حالات میں وہ ضعیف ہوتے ہیں لہٰذا کہیں ان پر جرح دیکھ کر نہ انہیں مطلقاً ضعیف سمجھنا درست ہے، اور نہ ہی کہیں ان کی تعدیل دیکھ کر مطلقاً ثقہ سمجھنا صحیح ہے۔ ان مخصوص حالتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی راوی ایک شہر یا ایک اقلیم کی روایت میں ثقہ لیکن دوسرے شہر کی روایت میں ضعیف ہوتا ہے، مثلاً اسماعیل بن عیاش صرف شامیوں سے روایت کرنے میں ثقہ ہے، غیر شامیوں سے اس کی روایت میں ضعف ہوتا ہے۔ [4] اسی طرح معمر بن راشد ازدی جب بصریوں سے روایت کرتا ہے تو وہ مضطرب ہوتی ہیں، لیکن یمانیوں سے اس کی روایات صحیح ہوتی ہیں‘‘۔ [5]
ان مخصوص حالتوں میں سے دوسری حالت یہ ہے کہ جب کوئی راوی اپنے کسی شیخ سے روایت کرتا ہے تو
|