Maktaba Wahhabi

180 - 363
نے ابو غالب سے محض اس وجہ سے روایت نہیں لی کہ ایک مرتبہ انہوں نے ابو غالب کو دھوپ میں حدیث بیان کرتے دیکھا تھا، حالانکہ یہ کوئی عیب کی بات نہ تھی۔ [1] ورقاء بن عمر نے شعبہ سے سوال کیا کہ آپ نے ابی فلاں کی حدیث کیوں ترک کر دی؟ تو جواب دیا: ’’رأيته يزن إذا وزن فيرجع في الميزان فتركت حديثه‘‘[2]اسی طرح ایک مرتبہ جب شعبہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’لم تركت حديث فلان‘‘؟ یعنی آپ نے فلاں کی حدیث کیوں ترک کی؟ تو جواب دیا: ’’رأيته يركض علي برذون فتركت حديثه‘‘[3]حالانکہ گھڑ سواری کوئی امر قادح نہیں ہے۔ لہٰذا بعض علماء صرف انہی اقوال جرح کو قبول کرتے ہیں جو مفسر اور مبین السبب ہوں۔ لیکن اس بارے میں علماء کے درمیان چند اور مسلک بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: 1- تعدیل سبب کے ذکر کے بغیر بھی قبول کی جائے گی کیونکہ اس کے اسباب بکثرت ہیں اور ان کا تذکرہ دشوار ہے لیکن جب تک سبب جرح مفسر و مبین نہ ہو جرح قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ جرح کسی ایک امر کے باعث بھی ہو سکتی ہے، پس اس کا بیان کرنا باعث مشقت نہیں ہے، اسباب جرح کے متعلق علماء کا بہت اختلاف رہا ہے، پس ہر کوئی اپنے اعتقاد کے مطابق کسی بنا پر بھی راوی پر جرح کر دیتا ہے، حالانکہ نفس الامر میں وہ سبب جرح درست اور قادح نہیں ہوتا، لہٰذا جرح کا سبب بیان کرنا ضروری ہے، تاکہ ظاہر ہو سکے کہ وہ امر فی الواقع قادح بھی ہے یا نہیں؟ [4] 2- بعض علماء مثلاً امام الحرمین نے ’’البرھان‘‘ میں غزالی نے ’’المنخول‘‘ میں، فخر الدین رازی نے ’’المحصول‘‘ میں اور قاضی ابوبکر باقلانی نے جرح کے بجائے تعدیل کے سبب کا مبین و مفسر ہونا ضروری قرار دیا ہے۔[5] 3- بعض اصولیین نے جرح و تعدیل دونوں کے لئے سبب کا مبین و مفسر ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ [6] 4- بعض علماء جرح و تعدیل دونوں کے لئے سبب کا مبین و مفسر ہونا ضروری نہیں سمجھتے، بشرطیکہ جارح
Flag Counter