Maktaba Wahhabi

181 - 363
یا معدل اسباب جرح و تعدیل سے بخوبی واقف اور صاحب بصیرت ہو۔ [1] 5- بعض علماء کے نزدیک تجریح مجمل مبہم اس راوی کے متعلق قبول کی جائے گی جس کی کسی نے تعدیل نہ کی ہو کیونکہ جب کسی کی تعدیل منقول نہ ہو تو وہ راوی مجہول کے حکم میں مانا جائے گا اور اس کے حق میں جارح کے قول کو اولی سمجھا جائے گا۔ [2] ذیل میں ہم قول اول و چہارم کے متعلق چند مشاہیر کی آراء پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کو ان کے مابین راجح قول کا فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہو: علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ائمہ حفاظ اور نقاد حدیث مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ وغیرہما کا مذہب یہی ہے (کہ سبب جرح مفسر و مبین کے ساتھ قادح بھی ہو) اسی باعث امام بخاری رحمہ اللہ نے ان رواۃ کی ایک جماعت سے احتجاج کیا ہے جن کو ان سے قبل دوسرے ائمہ نے مطعون کیا تھا اور ان پر جرح (غیر قادح یا غیر مفسر) کی گئی تھی مثلاً: تابعین میں عکرمہ مولی ابن عباس، اسماعیل بن ابی اویس، عاصم بن علی اور متأخرین میں عمرو بن مرزوق وغیرہم۔ اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی سوید بن سعید اور دوسرے مشہور مطعون رواۃ کی ایک جماعت سے احتجاج کیا ہے۔ امام ابو داؤد سجستانی رحمہ اللہ اور ان کے بعد بھی متعدد ائمہ نے اس طریقہ کو اختیار کیا ہے۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان سب ائمہ کے نزدیک سبب جرح اگر مفسر نہ ہو تو وہ جرح ثابت نہیں ہوتی ہے‘‘۔[3] قاضی ابو الطیب طاھر بن عبداللہ بن طاہر الطبری رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’لا يقبل الجرح إلا مفسرا، وليس قول أصحاب الحديث فلان ضعيف و فلان ليس بشيء مما يوجب جرحه ورد خبره و إنما كان كذلك لأن الناس اختلفوا فيما يفسق به فلا بد من ذكر ببه لينظر هل هو فسق أم لا؟‘‘ [4] خطیب بغدادی رحمہ اللہ اول الذکر قول کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وهذا القول أولي بالصواب عندنا‘‘[5]اور آگے چل کر فرماتے ہیں:
Flag Counter