Maktaba Wahhabi

182 - 363
اگر جارح کوئی عامی ہو تو لامحالہ اس پر سبب جرح بیان کرنا واجب ہے۔ پس بیان کیا گیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اسباب جرح کے کشف کو اس لئے واجب سمجھتے تھے کہ آپ کو پتہ چلا کہ کسی شخص نے کسی دوسرے شخص پر جرح کی ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اس پر کیوں جرح کی گئی ہے؟ کسی نے جواب دیا کہ: اس لئے کہ اس کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا گیا ہے۔ حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا: تو آخر اس میں موجب جرح کیا چیز ہے؟ اس نے جواب دیا کہ: کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے باعث اس کے بدن اور کپڑوں پر پیشاب کی چھینٹیں پڑتی ہوں گی اور وہ اسی طرح نماز پڑھ لیتا ہو گا۔ کسی شخص نے پوچھا کہ کیا اس کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ: نہیں۔ پھر خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ یہ یا اس نوع کی چیزیں جرح بالتاویل اور جہل ہیں۔ کوئی عالم کسی پر اس طرح کی جرح نہیں کیا کرتا، پس اس بارے میں کشف سبب جرح واجب ہے‘‘۔ [1] حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ نے پہلے قول کو ’’صحیح مشہور‘‘ بتایا ہے۔ [2] علامہ طیبی رحمہ اللہ بھی پہلے قول کو ’’علی الصحیح المشہور‘‘ قرار دیتے ہیں۔ [3] علامہ ابن دقیق العید فرماتے ہیں: ’’بعد أن يؤثق الراوي من جهة المزكين قد يكون الجرح مبهما فيه غير مفسر و مقتضي قواعد الأصول عند أهله أنه لا يقبل الجرح إلا مفسرا‘‘ [4] امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ’’التقریب‘‘ میں پہلے قول کو ’’صحیح‘‘ بتایا ہے۔ [5] آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’لا يقبل الجرح إلا مفسرا مبين السبب‘‘ [6] امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسباب جرح مختلف ہونے کی وجہ سے کسی راوی کے بارے میں جب تک قدح واضح نہ ہو کوئی طعن قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔[7] بدر بن جماعہ ’’المختصر‘‘ میں پہلے قول کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’هذا هو الصحيح المختار فيهما و به قال الشافعي‘‘ [8]
Flag Counter