ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہ تجریح قبول نہیں کی جاتی جس کی وجہ بیان نہ کی گئی ہو، بخلاف تعدیل کے کہ جس کے لئے صرف اس قدر کہہ دینا ہی کافی ہوتا ہے کہ عدل یا ثقہ‘‘۔[1]
شیخ زکریا بن محمد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حافظ ابن الصلاح کا اس بارے میں قول بظاہر فقہ اور اصول فقہ میں مقرر ہے اور خطیب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہمارے نزدیک یہی صواب ہے‘‘۔ [2]
علامہ کمال الدین جعفر بن ثعلب الادونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح ان کا قول ہے کہ فلاں ضعیف ہے، لیکن ضعف کی وجہ بیان نہیں کرتے، پس یہ جرح مطلق ہے۔اس بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل ہم نے اصول میں ذکر کر دی ہے۔ اولی یہ ہے کہ متاخر محدثین کا یہ قول قبول نہ کیا جائے کیونکہ وہ ایسی چیزوں سے بھی جرح کر دیتے ہیں جو باعث جرح نہیں ہیں۔ اسی طرح محدثین کا قول ہے کہ فلاں سئ الحفظ ہے یا حافظ نہیں ہے، تو یہ جرح مطلق نہیں ہے بلکہ ایسی صورت میں محدث اور حدیث کے حال پر نظر کرنی چاہیے‘‘۔ [3]
صاحب ’’المنار‘‘ علامہ نسفی کے شارح، علامہ زین العابدین ابن نجیم فرماتے ہیں:
’’ائمہ حدیث کی طرف سے طعن مبہم مثلاً یہ حدیث غیر ثابت یا منکر یا مجروح ہے یا اس کے راوی متروک الحدیث یا غیر عدل ہیں، راوی پر تجریح نہیں ہے، پس وہی جرح قبول کی جائے گی جو مفسر ہو اور وہ بھی متفق علیہ سبب جرح ہو‘‘۔ [4]
عبداللطیف بن عبدالعزیز المشہور بابن ملک کا قول ہے:
’’بعض علماء فرماتے ہیں کہ طعن مبہم جرح ہو سکتی ہے کیونکہ تعدیل مطلق مقبول ہے، اسی طرح جرح بھی ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ اسباب تعدیل غیر منضبط ہیں۔ لیکن جرح کے لئے ایسا نہیں ہے‘‘۔ [5]
علامہ عبدالعزیز بن احمد بن محمد البخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ائمہ حدیث کی طرف سے جو طعن مجمل ہو وہ قبول نہ کیا جائے، مثلاً: یہ حدیث غیر ثابت ہے یا غیر منکر ہے یا فلاں متروک الحدیث یا ذاہب الحدیث یا مجروح یا غیر عدل ہے وغیرہ – یہ عام فقہاء اور محدثین کا مذہب ہے‘‘۔ [6]
|