سلیمان بن موسیٰ کہتے ہیں:
’’لقيت طاؤسا فقلت حدثني فلان كيت و كيت قال ان كان صاحبك مليئا فخذ عنه‘‘ [1]
’’میری ملاقات طاؤس سے ہوئی تو میں نے کہا کہ فلاں نے مجھے ایسے حدیث سنائی فرمایا کہ اگر تمہیں سنانے والا ثقہ اور عادل ہے تو پھر اس سے حدیث کو قبول کرو‘‘۔
مؤمل بن اھاب کا قول ہے کہ میں نے یزید بن ھارون کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:
’’يكتب عن كل صاحب بدعة إذا لم يكن داعية إلا الرافضة فإنهم يكذبون‘‘ [2]
’’ہر صاحب بدعت سے حدیث لکھی جائے بشرطیکہ وہ رافضیت کا مبلغ نہ ہو کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘
محمد بن سعید بن اصبہانی فرماتے ہیں کہ میں نے شریک کو کہتے ہوئے سنا ہے:
’’احمل العلم عن كل من لقيت إلا الرافضة فإنهم يضعون الحديث و يتخذونه دينا‘‘ [3]
علی بن الجعد بیان کرتے ہیں کہ میں نے قاضی ابو یوسف کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:
’’أجيز شهادة أهل الأهواء أهل الصدق منهم إلا الخطابية والقدرية الذين يقولون إن اللّٰه لا يعلم الشيء حتي يكون‘‘ [4]
ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے خطابیہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’صنف من الرافضة‘‘ یعنی رافضہ کی ایک قسم ہے۔ پھر جھوٹی شہادت کی ایک مثال ان کے وصف کے طور پر بیان کی۔[5]
امام ابو حاتم رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’ومنهم المعلن بالفسق والسنة و إن كان صدوق في روايته لأن الفاسق لا يكون عدلا والعدل لا يكون مجروحا من خرج عن حد عدالة لا يعتمد علي صدقه، وإن صدق في شيء بعينه في حالة من الأحوال إلا أن يظهر عليه ضد الجرح حتي يكون اكثر أحواله طاعة اللّٰه عزوجل فحينئذ يحتج بخبره فأما قبل ظهور ذلك عنه فلا‘‘ [6]
’’جمع الجوامع‘‘ میں ہے:
’’يقبل مبتدع يحرم الكذب‘‘[7]وقال المحلي: ’’لأمنه فيه مع تاويله في الابتداع سواء دعا الناس اليه أم لا‘‘۔
|