Maktaba Wahhabi

250 - 363
علامہ سیوطی اور استاذ احمد محمد شاکر رحمہما اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر مفسق بدعت ورعاً، صادقاً اور متعبداً معروف ہو تو بعض علماء مثلاً امام شافعی وغیرہ نے اس کی روایت کو قبول کیا ہے اور اس بات کی تمیز نہیں کی کہ وہ راوی مبلغ بدعت ہے یا غیر مبلغ‘‘۔[1] امام مالک رحمہ اللہ بھی روافض کی روایت سے بسبب کذب منع فرمایا کرتے تھے چنانچہ منقول ہے: ’’لا تكلمهم ولا تروعنهم فإنهم يكذبون‘‘ [2] فضل بن مروان بیان کرتے ہیں کہ ایک دن محدث علی بن عاصم نے کہنا شروع کیا: ’’حدثنا عمرو بن عبيد وكانا قدريا‘‘ یہ سن کر معتصم نے کہا: اے ابو الحسن! کیا آپ قدریہ کو اس امت کے مجوس نہیں سمجھتے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں سمجھتا ہوں۔ انہوں نے دریافت کیا: پھر آپ نے ان سے کیوں روایت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اس لئے کہ وہ حدیث میں ثقہ اور صدوق تھے۔ معتصم نے پوچھا کہ اگر کوئی مجوسی ثقہ ہو تو کیا آپ اس سے بھی روایت کریں گے؟ یہ سن کر انہوں نے: ’’انت شغاب يا ابا اسحاق‘‘ [3] حافظ سخاوی رحمہ اللہ، علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک یہ طے ہے کہ ہم روایت میں مذاہب کا اعتبار نہیں کرتے اور نہ ہی اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر کرتے ہیں الا یہ کہ وہ شریعت میں سے کسی قطعی چیز کا منکر ہو، اگر ہم اس چیز کا اعتبار کریں اور اس میں ورع و تقویٰ کا انضمام بھی ہو تو معتمد روایت حاصل ہوئی۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے کیونکہ وہ اہل اہواء کی شہادت قبول کرتے ہیں۔‘‘ [4] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’لا تظنن بكلمة خرجت من في امرئ مسلم شرا و أنت تجدلها في الخير محلا‘‘ [5] حافظ زین الدین عراقی صاحب ’’المحصول‘‘ کا قول نقل کرتے ہیں: ’’الحق أنه إن اعتقد حرمة الكذب قبلنا روايته و إلا فلا‘‘ [6] ’’حق یہ ہے کہ اگر مبتدع حرمت کذب کا اعتقاد رکھتا ہو تو ہم اس کی روایت قبول کرتے ہیں ورنہ نہیں۔‘‘
Flag Counter