ساتھ ہی ضبط و تقویٰ اور ورع سے متصف بھی ہو تو اس کی روایات قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے‘‘۔ [1]
حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں:
’’ان علماء میں سے بعض وہ بھی ہیں جو مبتدع کی روایت قبول کرتے ہیں، بشرطیکہ وہ اپنے مذہب یا اپنے اہل مذہب کی نصرت و حمایت کے لئے کذب کو حلال نہ سمجھتا ہو۔ اس میں داعئ بدعت اور غیر داعی دونوں یکساں طور پر شامل ہیں‘‘۔ [2]
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’و تقبل شهادة أهل الأهواء إلا الخطابية من الرافضة لأنهم يرون الشهادة بالزور لموافقيهم‘‘ [3]
’’اہل ہواء یعنی مبتدعین کی شہادت مقبول ہے بجز رافضیوں میں سے خطابیہ فرقہ کے کیونکہ وہ لوگ جھوٹی شہادت کو اپنی موافقت میں درست سمجھتے ہیں۔ امام ابن ابی لیلیٰ، امام ثوری اور قاضی ابو یوسف سے بھی یہی مذہب منقول ہے‘‘۔
حرملہ بن یحییٰ کا قول ہے:
’’میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا: ’’لم أر أحدا من أهل الأهواء أشهد بالزور من الرافضة‘‘ [4]
امام بیہقی رحمہ اللہ ’’المعرفۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’امام شافعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ابراہیم بن محمد اسلمی قدری لیکن ثقہ تھا (پھر امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ) لہٰذا اس سے امام شافعی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے‘‘۔ [5]
امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’حدثںا الثقة في حديثه المتهم في دينه‘‘ [6]
|