’’اس لئے کہ ابو معاویہ ارجاء کا داعی نہ تھا جب کہ شبابہ قدر کا داعی تھا۔‘‘ [1]
ابراہیم بن الحربی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے دریافت کیا: اے ابو عبداللہ! کیا میں ابو قطن قدری سے حدیث کا سماع کروں؟
آں رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’لم أره داعية ولو كان داعية لم اسمع منه‘‘ [2]
محمد بن عبدالعزیز الأیبوردی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ کیا مرجئی اور قدری کی احادیث لکھی جائیں؟ آپ نے فرمایا:
’’نعم يكتب عنه إذا لم يكن داعيا‘‘[3]یعنی ’’ہاں اگر داعئ بدعت نہ ہو تو اس کی حدیث لکھی جائے۔‘‘
ابو داؤد سلیمان بن الأشعث السجزی نے بھی ایسا ہی ایک قول نقل کیا ہے، [4] اس بارے میں امام رحمہ اللہ کا ایک قول یوں بھی مروی ہے:
’’من رأي رأيا ولم يدع إليه احتمل ومن رأي رأيا و دعا إليه فقد استحق الترك‘‘ [5]
نعیم بن حماد بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے عمرو بن عبید کو ترک کیا ہے لیکن ہشام دستوائی اور سعید اور فلاں فلاں سے حدیث روایت کرتے ہیں، حالانکہ وہ سبھی اہل بدعت ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: ’’عمرو بن عبید داعئ بدعت ہے‘‘[6]ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے عمرو بن عبید کو ’’چوٹی کا داعی بدعت‘‘ قرار دیا ہے۔ [7]
عباس بن محمد نے امام یحییٰ بن معین سے سوال کیا کہ کیا آپ أھل الأھواء میں سے ہر داعئ بدعت کے متعلق یہی حکم فرماتے ہیں کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے خواہ وہ قدری ہو یا رافضی یا کوئی اور؟ آں رحمہ اللہ نے جواب دیا:
’’ہم ان کی روایات نہیں لکھتے مگر اس وقت جب کہ ہمیں اس بات کا غالب گمان ہو جائے کہ وہ اپنی بدعت کا داعی نہیں ہے، مثال کے طور پر ہشام دستوائی وغیرہ کہ جو قدری ہونے کے باوجود اس کی طرف دعوت نہ دیتے تھے‘‘۔ [8]
عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’ثلاثة لا يحمل عنهم: رجل متهم بالكذب و رجل كثير الوهم والغلط و رجل صاحب
|