Maktaba Wahhabi

254 - 363
هوي يدعو إلي بدعة‘‘ [1] علامہ رضی الدین بن حنبلی حنفی فرماتے ہیں: ’’ہمارے (یعنی حنفیہ) کے نزدیک بھی اکثر اصولیین کے مطابق مکفر مبتدع کی روایت غیر مقبول ہے، لیکن اگر وہ مفسق ہو تو اس بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس مبتدع کی روایت مقبول ہے، بشرطیکہ وہ عدل، ثقہ اور غیر مبلغ بدعت ہو۔‘‘ [2] امیر ابن الحاج حنفی، امام حاکم رحمہ اللہ سے ناقل ہیں: ’’الداعي إلي الضلال متفق علي ترك الأخذ منه‘‘ [3] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر راوی اخذ و اداء میں ثابت ہو اور اپنی رائے کا داعی نہ ہو تو تشیع باعث ضرر نہیں ہے۔‘‘ [4] امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’أربعة لا يكتب عنهم: رجل سفيه معروف بالسفه، و صاحب هوي داعية إلي هواه و رجل صالح لا يدري ما يحدث و رجل يكذب في حديث رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم و سائرهم يكتب عنهم‘‘ [5] یعنی ’’چار قسم کے لوگوں سے حدیث نہ لکھی جائے: 1- سفیہ شخص جو سفاہت کے لئے معروف ہو، 2- مبتدع جو داعئ بدعت ہو، 3- ایسا صالح شخص جسے علم نہ ہو کہ وہ کیا بیان کر رہا ہے۔ 4- اور ایسا شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں دروغ گوئی کرتا ہو۔ ان کے علاوہ سب سے حدیث لکھی جائے۔‘‘ امام ابن حبان رحمہ اللہ، جعفر بن سلیمان الضعبی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: ’’ہمارے ائمہ میں سے اہل الحدیث کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی صدوق و متقن راوی میں بدعت موجود ہو لیکن وہ اس کا داعی نہ ہو تو اس کی اخبار سے احتجاج درست ہے، لیکن اگر وہ داعی ہو تو اس کی اخبار سے حجت پکڑنا ساقط ہے۔‘‘ [6] مختلف اہل مذاہب مثلاً مرجئی اور روافض وغیرہ کی روایات سے احتجاج کرنے کے متعلق امام ابن حبان رحمہ اللہ
Flag Counter