Maktaba Wahhabi

255 - 363
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’نحتج بأخبارهم إذا كانوا ثقات – ولكل مذاهبهم وما تقلدوا فيما بينهم و بين خالقهم جل و علا إلا أن يكونوا دعاة إلي ما انتحلوا‘‘ [1] حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں: ’’امام شافعی رحمہ اللہ کے بعض اصحاب نے ان کے اصحاب کے مابین غیر داعئ بدعت مبتدع کی روایت قبول کرنے کے بارے میں اختلاف نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ داعئ بدعت ہو تو اس کی روایت کی عدم قبولیت کے بارے میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابو حاتم بن حبان البستی جو کہ ائمہ حدیث میں سے ایک مصنف ہیں، کا قول ہے کہ داعئ بدعت کے ساتھ ہمارے ائمہ قاطبہ کے نزدیک احتجاج درست نہیں ہے۔ مجھے اس بارے میں ان کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔‘‘ [2] ] نوٹ: لیکن حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ، امام ابن حبان رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا اتفاق کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’اس بارے میں ابن حبان نے جو اتفاق نقل کیا ہے وہ محل نظر ہے۔‘‘ [3] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بھی اس مذکورہ اتفاق پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’إن ابن حبان أغرب في حكاية الاتفاق‘‘[4] [ شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’المختار أنه إن كا داعيا إلي بدعته و مروجا له رد و إن لم يكن كذلك قبل إلا أن يروي شيئا يقوي به بدعته فهو مردود قطعا‘‘ [5] یعنی ’’بدعتی کے بارے میں مذہب مختاریہ ہے کہ اگر وہ بدعت کا داعی اور اس کے رائج کرنے والا ہو تو مردود ہے ورنہ مقبول، بشرطیکہ وہ ایسی چیز روایت نہ کرتا ہو جس سے اس کی بدعت کو تقویت پہنچتی ہو کیونکہ اس صورت میں تو وہ قطعاً مردود ہے۔‘‘ امام ابو حاتم رحمہ اللہ چند مشہور داعئ بدعت رواۃ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی روایات سے بچنے کے متعلق لکھتے ہیں:
Flag Counter