’’ومنهم المبتدع إذا كان داعية يدعو الناس إلي بدعته حتي صار إما ما يقتدي به في بدعته و يرجع إليه في ضلالته كغيلان و عمرو بن عبيد و جابر الجعفي و ذويهم‘‘ [1]
ڈاکٹر محمود الطحان فرماتے ہیں:
’’وان كانت بدعته مفسقة فالصحيح الذي عليه الجمهور أن روايته تقبل بشرطين: ألا يكون داعية إلي بدعته و ألا يروي ما يروج بدعته‘‘ [2]
’’اگر مبتدع بدعت مفسقہ کا مرتکب ہے تو جمہور کے نزدیک جو صحیح بات ہے وہ یہ ہے کہ اس کی روایت دو شرطوں کے ساتھ قبول کر لی جائے گی: (1) وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو، (2) ایسی بات کی روایت نہ کرے جو اس کی بدعت کی ترویج کا سبب بنے۔‘‘
جناب عبدالرحمٰن بن عبیداللہ رحمانی فرماتے ہیں:
’’ایسی بدعت جو اس کے حامل کے فسق پر مستلزم ہو۔ ایسے شخص کی روایت قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ اپنی بدعت کا داعی نہ ہو اور نہ ایسی چیز کی روایت کرتا ہو جس سے اس کی بدعت کو تقویت ملتی ہو۔ پس اگر وہ اپنی بدعت کا داعی ہو یا اس کو تقویت پہنچانے والی چیز کو روایت کرے تو اس کی روایت رد کر دی جائے گی۔ جمہور کے نزدیک یہ مذہب مختار اور درست ہے۔‘‘ [3]
اس مسلک کے متعلق علامہ خطیب بغدادی، حافظ ابن الصلاح، حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہم اللہ کے اقوال اوپر گزر چکے ہیں۔ امام سیوطی رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ وغیرہما نے بھی اسی مذہب کو اکثر علماء کا پسندیدہ، صحیح اور اعدل بیان کیا ہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’وهذا مذهب كثيرين أو أكثر من العلماء وهو الأعدل الصحيح‘‘[4]اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ و امام سیوطی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’وهذا في الأصح‘‘ [5]
لیکن اس بارے میں یہ جاننا بھی مفید ہو گا کہ حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو دعاۃ کے ساتھ احتجاج نہ کرنے کے قائل ہیں کیونکہ شیخین نے دعاۃ کے ساتھ بھی احتجاج کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے عمران بن حطان السدوسی کے ساتھ احتجاج کیا ہے جو کہ خوارج کے دعاۃ میں سے تھا۔ اسی طرح شیخین نے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن الحمانی کے ساتھ بھی احتجاج کیا ہے جو کہ رجائیت کا داعی تھا، جیسا کہ
|