Maktaba Wahhabi

257 - 363
ابو داود کا قول ہے۔ (پھر فرماتے ہیں) : ابوداود کا قول ہے: ’’ليس في أهل الأهواء أصح حديثا من الخوارج‘‘ پھر آں رحمہ اللہ نے عمران بن حطان اور أبو حسان الأعرج کا ذکر فرمایا ہے۔‘‘ [1] حافظ عراقی رحمہ اللہ نے محدثین کے اس موقف پر امام بخاری رحمہ اللہ کے عمران بن حطان السدوسی سے تخریج فرمانے کو دلیل بناتے ہوئے جو اعتراض کیا ہے وہ درست ہے کہ عمران بن حطان، قاتل علی عبدالرحمٰن بن ملجم کی مدح کرنے والا بلکہ اپنی بدعت کے بڑے دعاۃ میں سے تھا [2]، لیکن اس کا جواب امام سخاوی رحمہ اللہ یوں دیتے ہیں: ’’امام بخاری رحمہ اللہ نے سدوسی سے جو روایت کی ہے تو وہ اس کے ابتداع سے قبل کی ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے آخر عمر میں اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہو اور یہ روایت اس کے رجوع کے بعد کی ہو۔ پھر امام رحمہ اللہ نے اس سے صرف ایک ہی حدیث (کتاب التوحید میں) تخریج کی ہے اور وہ بھی متابعات میں سے ہے، پس یہ تخریج متابعات میں مضر نہیں ہے۔‘‘ [3] اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ایسے رواۃ جن کی بہ سبب اعتقاد تضعیف کی گئی ہے مگر وہ داعئ بدعت نہ تھے یا تائب ہو گئے تھے یا ان کی روایت کا متابع کے ساتھ اعتضاد ممکن تھا ان کو امام بخاری رحمہ اللہ نے صالح الاحتجاج تسلیم کیا ہے۔‘‘ [4] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ مفسق بدعت مبتدع کی روایت قبول کرنے کے متعلق علماء کے ان تینوں گروہوں کے اقوال اور دلائل نقل کرتے ہوئے نہایت فیصلہ کن انداز میں اپنی وقیع رائے یوں درج فرماتے ہیں: ’’والثاني وهو من لا يقتضي بدعته التكفير أصلا وقد اختلف أيضا في قبوله ورده فقيل يرد مطلقا وهو بعيد و أكثر ما علل به أن في الرواية عنه ترويجا لامره و تنويها بذكره و عليٰ هذا فينبغي أن لا يروي عن مبتدع شيء يشاركه فيه غير مبتدع وقد يقبل مطلقا إلا إن اعتقد حل الكذب كما تقدم وقيل يقبل من لم يكن داعية إلي بدعته لأن تزيين بدعته قد يحمله علي تحريف الروايات و تسويتها علي ما يقتضيه مذهبه وهذا في الأصح۔ و أغرب ابن حبان فادعي الاتفاق علي قبول غير الداعية من غير تفصيل نعم أكثر علي قبول غير الداعية إلا إن روي ما يقوي بدعته فيرد علي المذهب المختار وبه صرح الحافظ ابو اسحاق ابراهيم بن يعقوب الجوزجاني شيخ ابي داود والنسائي في كتابه
Flag Counter