لگایا ہے اور نہ ہی مسامحت برتتے ہوئے ہر شخص کی الم غلم روایات کو اپنی تصانیف میں جگہ دے ڈالی ہے، بلکہ ان کے ردوقبول کے لئے کچھ قواعد و ضوابط وضع کئے تھے تاکہ ان کی مدد سے حدیث نبوی کو مبتدعین کی بدعت و ضلالات سے چھان پھٹک کر علیحدہ کیا جا سکے، چنانچہ مکفر بدعت کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فالأول لا يقبل صاحبها الجمهور وقيل يقبل مطلقا وقيل إن كان لا يعتقد حل الكذب لنصرة مقالته قبل والتحقيق أنه لا يرد كل مكفر ببدعة لان كل طائفة تدعي أن مخالفيها مبتدعة وقد تبالغ متكفر مخالفيها فلو أخذ ذلك علي الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف فالمعتمد أن الذي ترد روايته من أنكر أمرا متواترا من الشرع معلوما من الدين بالضرورة وكذا من اعتقد عكسه فأما من لم يكن بهذه الصفة و انضم إلي ذلك ضبطه لما يرويه مع ورعه و تقواه فلا مانع من قبوله‘‘ [1]
یعنی ’’اول (مکفر بدعت) کی حدیث جمہور کے نزدیک مقبول نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مطلقاً مقبول ہے، بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مبتدع اپنی بات منوانے کے لئے جھوٹ بولنا حلال نہ سمجھتا ہو تو مقبول ہے ورنہ مردود اور صحیح بات تو یہ ہے کہ جس شخص پر بوجہ بدعت کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہو اس کی روایت کو علی الاطلاق رد کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہر فریق اپنے مخالف گروہ کو مبتدع قرار دیتا ہے، اور اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ اپنے مخالف پر کفر کا فتویٰ لگا دیتا ہے۔ پس اگر اس چیز کو علی الاطلاق مان لیا جائے تو ہر فریق کی تکفیر لازم آئے گی۔ پس معتمد طریقہ یہ ہے کہ صرف اس کی روایت کو رد کیا جائے جو شریعت کے کسی قطعی حکم متواتر کا انکار کرتا ہو اور اسی طرح جو اس کے بالکل برعکس اعتقاد رکھتا ہو۔ پس جو شخص اس صفت کا حامل نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ہی جب وہ روایت کرتا ہو تو ضبط و ورع اور تقویٰ کا اہتمام کرتا ہو تو اس کے مقبول ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
’’قال العلماء من المحدثين والفقهاء و أصحاب الأصول المبتدع الذي يكفر ببدعته لا يقبل روايته بالاتفاق‘‘ [2]
’’علمائے محدثین و فقہاء و اصحاب اصول کا قول ہے کہ مکفر بدعت کی روایت بالاتفاق قبول نہ کی جائے گی‘‘۔
علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جمہور اس طرف گئے ہیں کہ مکفر بدعت کی روایت قبول نہ کی جائے گی‘‘۔ [3]
|