مَا يَشَاءُ [٤٠] قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ][1]
’’(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا اے میرے رب میرا لڑکا کس طرح ہو گا حالانکہ مجھ کو بڑھاپا آ پہنچا ہے اور میری بیوی بھی بانجھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اسی حالت میں لڑکا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ ارادہ کر لے وہ کر دیتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب میرے واسطے کوئی نشانی مقرر کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری نشانی یہی ہے کہ تم لوگوں سے تین روز تک باتیں نہ کر سکو گے بجز اشارہ کے اور اپنے رب کو (دل سے) بکثرت یاد کرنا اور (زبان سے بھی) تسبیح (و تقدیس) کرنا دن ڈھلے بھی اور صبح کو بھی‘‘۔
یہی واقعہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر یوں بیان ہوا ہے:
[قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [٨] قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا [٩] قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً ۚ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا] [2]
’’(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا کہ اے میرے رب میرا لڑکا کس طرح ہو گا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بھی بڑھاپے کے انتہائی درجہ کو پہنچ چکا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ حالت یونہی رہے گی (مگر پھر بھی اولاد ہو گی) تیرے رب کا قول ہے کہ یہ (امر) مجھ کو آسان ہے اور میں نے تم کو پیدا کیا حالانکہ تم (پیدائش کے قبل) کچھ بھی نہ تھے۔ (جب) زکریا نے عرض کیا اے میرے رب میرے لئے کوئی علامت مقرر فرما دیجئے۔ ارشاد ہوا کہ تمہاری (وہ) علامت یہ ہے کہ تم تین رات (اور تین دن تک) آدمیوں سے بات نہ کر سکو گے، حالانکہ تندرست ہو گے‘‘۔
اگر ان دونوں آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے جملوں کی ترتیب اور الفاظ میں اختلاف ہے۔ ایک جگہ یہ قصہ اختصار کے ساتھ اور دوسری جگہ قدرے تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ان دونوں آیتوں کا مقصد و مفہوم ایک ہی ہے۔
قرآن کریم میں اس اسلوب بیان کے اور بہت سے واقعات تلاش کئے جا سکتے ہیں جن کا مقصد، معانی، مطلب، منشا، مفہوم اور مضمون ایک ہی ہے لیکن مختلف مقامات پر انہیں مختلف الفاظ، مختلف ہئیت، مختلف کلمات، تفصیل و اختصار نیز تقدیم و تاخیر کے مختلف پیرایہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقد ورد القرآن بمثل ذٰلك فإن اللّٰه تعاليٰ قص من أنباء ما قد سبق قصصا كرر ذكر بعضها في مواضع بألفاظ مختلفة والمعني واحد و نقلها من ألسنتهم إلي اللسان العربي وهو مخالف لها في التقديم والتأخير والزيادة والنقصان و نحو ذلك‘‘ [3]
|