Maktaba Wahhabi

306 - 363
ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ اور ان دونوں کے روبرو قسم کھائی کہ یقین جانئے میں آپ دونوں کا خیرخواہ ہوں پس ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا، پس ان دونوں نے جو درخت کو چکھا دونوں کا پردہ کا بدن ایک دوسرے کے روبرو و بے پردہ ہو گیا۔ اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ توڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے ممانعت نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے‘‘۔ ایک دوسری سورہ میں اس واقعہ کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں: [وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا [١١٥] وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ [١١٦] فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَـٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ [١١٧] إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ [١١٨] وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ [١١٩] فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ [١٢٠] فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ][1] ’’اور اس سے قبل ہم آدم کو ایک تاکیدی حکم دے چکے تھے سو ان سے غفلت (اور بے احتیاطی) ہو گئی اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی اور وہ وقت یاد کرو جبکہ ہم نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو، سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا پھر ہم نے (آدم سے) کہا کہ اے آدم (یاد رکھو) یہ بلاشبہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، سو تم دونوں کو کہیں جنت سے نہ نکلوا دے، پھر تم مصیبت میں جا پڑو۔ یہاں جنت میں تو تمہارے لئے یہ (آرام) ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے رہو گے اور نہ ننگے ہو گے اور نہ یہاں پیاسے ہو گے اور نہ دھوپ میں تپو گے، پھر ان کو شیطان نے بہکایا کہنے لگا کہ اے آدم کیا میں تم کو ہمیشگی (کی خاصیت) کا درخت بتلاؤں؟ اور ایسی بادشاہی کہ جس میں کبھی ضعف نہ آوے؟ سو (اس کے بہکانے سے) دونوں نے اس درخت سے کھا لیا تو ان دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور (اپنا بدن ڈھانپنے کو) دونوں اپنے اوپر جنت کے (درختوں کے) پتے چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہو گیا سو غلطی میں پڑ گئے‘‘۔ اگر آدم علیہ السلام کے واقعہ کی ان تینوں تفاصیل پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں لفظی اور ظاہری ہئیت کے اختلاف کے ساتھ اختصار و تفصیل بھی موجود ہے مگر سب کا منشاء و مقصود ایک ہی ہے۔ اسی طرح جب حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے (حضرت یحییٰ علیہ السلام) کی بشارت دے گئی تو انہوں نے اپنے رب سے جو عرض کیا وہ ایک مقام پر یوں مذکور ہے: [قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ
Flag Counter