Maktaba Wahhabi

334 - 363
حافظ ابن الصلاح، حافظ عراقی اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہم کے الفاظ میں روایت بالمعنی کی ایک شرط یہ ہے: ’’أن لا يقع التخالف في المعني‘‘ –[1]یعنی ’’اس روایت کے معنی میں تخالف واقع نہ ہو‘‘۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’هذا أوسع عند أهل العلم إذا لم يتغير المعني‘‘ [2] امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی ایک شرط آں رحمہ اللہ کے اس قول سے واضح ہوتی ہے: ’’لا أكتب إلا عن رجل يعرف ما يخرج من رأسه‘‘ [3] ماوردی اور الرویانی کا قول ہے: ’’و شرطه أن يكون متساويا له في الجلاء والخفاء و إلا فيمتنع الخ‘‘ [4] اس امر پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ امور شریعت میں سے جن چیزوں میں لفظ اور معنی دونوں کی محافظت مطلوب ہے، مثلاً تکبیر، تشہد، اذان اور شہادت وغیرہ، تو ان کا بعینہ ورود ضروری ہے، چنانچہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’فالاتفاق حاصل علي ورود الشرع بأشياء قصد فيها الإتيان باللفظ والمعني جميعا نحو التكبير والتشهد والأذان والشهادة و إذا كان كذلك أمكن أن يكون المطلوب بالحديث لفظه و معناه جميعا لا سيما وقد ثبت قوله صلي اللّٰه عليه وسلم نضر اللّٰه إمرءا سمع منا حديثا فأداه كما سمعه الخ‘‘ [5] اسی طرح علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’روایت بالمعنی کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ از قسم عبادات، مثلاً دعاء وغیرہ نہ ہوں نیز ایک شرط یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ جوامع الکلم (یعنی ایسے جامع الفاظ جو قلیل الألفاظ اور کثیر المعنی ہوں) کی قبیل سے نہ ہوں‘‘۔ اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لم يسوغ لمن علمه الدعاء مخالفة اللفظ‘‘ [6] بعض علماء کی رائے ہے کہ: ’’ظاہری معنی میں نہیں لیکن غامض میں یہ روایت ناجائز ہے‘‘۔ [7]
Flag Counter