Maktaba Wahhabi

333 - 363
استفادہ پہنچا تھا پس وہ احادیث کے تمام مقاصد و منشا کو بہتر طریقہ پر سمجھتے تھے‘‘۔ [1] امام سخاوی رحمہ اللہ مزید بیان کرتے ہیں: ’’بعض کا قول ہے کہ صحابہ اور تابعین کے علاوہ کسی اور کے لئے روایت بالمعنی جائز نہیں ہے لیکن جو صحابی یا تابعی ہو اس کے لئے بالمعنی روایت جائز ہے۔ اس پر خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے بعض معاصرین مثلاً قاضی ابوبکر کے حفید نے ’’ادب الروایۃ‘‘ میں جزم اختیار کیا ہے، کہتے ہیں: کیونکہ جب حدیث کو اسناد کے ساتھ مقید کر دیا جائے تو اس کے الفاظ کا مختلف نہ ہونا واجب ہے، ورنہ یہ چیز کذب کے اندر داخل سمجھی جائے گی‘‘۔ [2] علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’احادیث کی روایت بالمعنی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الفاظ کی مخالفت اور بعض کلام کی بعض پر تقدیم جائز نہیں ہے، اگرچہ کہ ان سب کا معنی ایک ہی ہو، اور نہ ہی حروف میں کسی چیز کی کمی یا زیادتی درست ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ایسا خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے متعلق واجب ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں کے اقوال کے متعلق یہ واجب نہیں ہے۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ مذکورہ تمام چیزیں جائز ہیں اگرچہ ان کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے ہی ہو بشرطیکہ معنی صحیح طور پر ادا ہو جاتا ہو‘‘۔[3] علامہ سخاوی رحمہ اللہ بعض علماء سے ایک شرط یہ نقل فرماتے ہیں کہ: ’’اگر روایت موجب عمل ہو تو اس کی روایت بالمعنی جائز نہیں ہے، لیکن اگر موجب علم ہو تو معنی پر معول ہونے کے سبب جائز ہے۔ ایسی صورت میں لفظ کی مراعات واجب نہیں رہتی۔ لیکن کسی عمل کی روایت بالمعنی جائز نہیں ہے جیسا کہ ابن السمعانی وغیرہ نے نقل کیا ہے‘‘۔[4] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ کے مختلف مقامات پر اور علامہ سیوطی نے ’’تدریب الراوی‘‘ میں روایت بالمعنی کی ایک شرط یہ بیان کی ہے کہ: ’’أن لا يقع تعبد بلفظه‘‘ –[5]یعنی ’’اس کے لفظ سے تعبد واقع نہ ہو‘‘۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بعض کا قول ہے کہ بغیر مترادف اور ہم معنی لفظ کے، روایت بالمعنی جائز نہیں ہے، لیکن اگر مترادف لفظ ہو تو اس مسئلہ میں علمائے اصول کے اختلاف کے ساتھ جائز ہے‘‘۔[6]
Flag Counter